جرمنی، ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کا حامی
8 جنوری 2010اعلیٰ جرمن عہدیدار نے یہ یقین دہانی انقرہ میں اپنے ترک ہم منصب احمد داؤد اوگلو کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کرائی۔ ویسٹر ویلے نے واضح الفاظ میں نئی جرمن حکومت سے جڑے ان خدشات کو بے بنیاد قرار دیا کہ وہ ترکی کے یورپی یونین کا رکن بننے کی مخالف ہے۔
ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوان سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں جرمن وزیر خارجہ نے انقرہ حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی مختلف اصلاحات کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا وہ ترکی کی حکومت، پارلیمان اور سول سوسائٹی کی جانب سے یورپی یونین طرز پر اصلاحات کے نفاذ کی کوششوں کوانتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
مسلم اکثریتی آبادی والے ملک ترکی کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے جرمن وزیر نے کہا کہ افغانستان، یمن، ایران اور مشرق وسطیٰ سے متعلق مسائل کے حل میں ترکی کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ مختلف بین الاقوامی امور کے علاوہ، ویسٹر ویلے کے دورہ ترکی کو بنیادی طورپر ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے تناظر میں زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔
جرمن وزیرخارجہ، برلن کی مخلوط حکومت میں شامل دوسری بڑی جماعت Free Democrat Party کے سربراہ ہیں۔ حکومتی اتحاد کی تیسری جماعت Christian Social Union ترکی کی یونین میں شمولیت کی سخت مخالف ہے جبکہ Christian Democratic Union سے تعلق رکھنے والی ملکی چانسلر انگیلا میرکل، ترکی کو باضابطہ رکنیت کے بجائے ایک مراعات یافتہ ساتھی ملک بننے کی پیش کش کرچکی ہیں جسے انقرہ حکومت نے مسترد کردیا تھا۔
تاہم جرمنی کی تینوں حکمران جماعتیں، ایک معاہدے کے تحت ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت سے متعلق مذاکراتی سلسلے کوجاری رکھنے پر اتفاق کرچکی ہیں۔ یورپی یونین نے ستر ملین سے زائد مسلم آبادی والے ملک ترکی کے ساتھ رکنیت کے معاملے پر بات چیت کا آغاز سال دو ہزار پانچ میں کیا تھا۔ اس مذاکراتی سلسلے کو ختم کرنے کے لئے یونین کے تمام رکن ممالک کے حمایت درکار ہوگی جبکہ
ترکی پر یورپی ممالک کی جانب سے شدید دباؤ ہے کہ وہ اپنے یہاں جمہوری اقدار، انسانی حقوق کی صورتحال اور بیان و مذہب کی آزادی میں مزید بہتری لائے ۔ ترکی کے یونین کا رکن بننے کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے میں ابھی مزید کئی سال لگ سکتے ہیں۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عاطف بلوچ