جرمنی: بیٹی کا قتل، پاکستانی نژاد والدین عدالتی کٹہرے میں
29 ستمبر 2015عدالت میں لاریب کے نامی لڑکی کے قتل میں گرفتار والدین اسد اللہ کے اور اُس کی بیوی شازیہ کے کو پیش کیا گیا۔ قتل کے ارتکاب کے بعد جرمن عدالت میں یہ اِن دونوں ملزمان کی پہلی پیشی تھی۔ لاریب کے کا قتل اُس کے والدین کے مطابق، لڑکی کو قتل اس لیے کیا گیاکیوں کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ اپنی مرضی سے شادی کرنے کی خواہش و تمنا رکھتی تھی۔ مقتولہ کے والدین اِس شادی کے مخالفت کر رہے تھے۔ وہ رواں برس اٹھائیس جنوری کو ہلاک کی گئی تھی۔
حالات و واقعات کے مطابق اسد اللہ نے مبینہ طور پر اپنی بیٹی لاریب کو رواں برس کے اوائل میں ہلاک کیا تھا۔ قتل کے اِس وقوعے میں اسد اللہ کی بیوی شاذیہ بظاہر پوری طرح ملوث نہیں تھی لیکن اُس نے اپنی بیٹی کی نعش کو موٹر کار میں منتقل کرتے وقت اپنے شوہر کی مدد کی تھی۔ بعد میں مقتولہ کے والدین نے موٹر کار میں لاش رکھ کر اُسے شہر سے دس منٹ کی مسافت پر جنگل میں لا کر ایک کھائی میں پھینک دیا۔
اگلی صبح کھائی کے قریب سے گزرنے والے افراد نے لاش دیکھ کر پولیس کو مطلع کیا۔
باون سالہ اسد اللہ کا تعلق احمدی فرقے سے ہے اور وہ سخت مذہبی عقائد کا حامل ہے۔ اُس نے عدالت میں اعتراف جرم کرتے ہوئے پچھتاوے کے احساس تلے کہا کہ کاش وہ سب کچھ دوبارہ تبدیل کر سکتا۔ لاریب کو اُس کے بوائے فرینڈ کے ساتھ جنسی میل ملاپ کے دوران اُس کے والدین نے دیکھ لیا تھا۔ فردِ جرم کے مطابق اپنی خاندانی وقار کو بحال کرنے کے لیے اسد اللہ نے سوتی ہوئی لاریب کو ہلاک کیا۔ مقتولہ کی ماں نے اپنے وکیل کے توسط سے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ تعاون پر مجبور کر دی گئی تھی۔ عدالت میں مقتولہ کی ماں مسلسل رو رہی تھی۔
لاریب کو جب قتل کیا گیا، اُس وقت وہ انیس برس کی تھی۔ اُس نے ڈینٹل اسسٹنٹ کی پیشہ ورانہ تربیت حاصل کر رکھی تھی۔ فرد جرم میں بیان کیا گیا کہ اسد اللہ نے اپنی بیٹی کو رات کے دو اور چار بجے کے درمیان ہلاک کیا۔ اُس کے کمرے میں جا کر سوئی ہوئی لڑکی کے اوپر اُس نے گھٹنے رکھتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اُس کا گلا گھونٹ دیا۔ لاریب کی ماں نے گرفتاری کے بعد پولیس کو بتایا کہ لاریب کی نعش کو اُس کی مرحومہ دادی کی وہیل چیئر پر رکھ کر گیراج تک لایا گیا اور پھر گاڑی میں ڈال کر جنگل لے جایا گیا تھا۔