1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی اور یورپ میں لابی سازی کی صنعت

17 مارچ 2010

ایک محتاط اندازے کے مطابق یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹرز برسلز میں لابی کرنے والے کم ازکم پندرہ ہزار ماہرین موجود ہیں۔ وہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے تعارف کے لئے مختلف اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/MVWt
جرمنی کے کامیاب ترین لابی ساز ماتھیاس وسمانتصویر: picture-alliance/dpa

ایسے ماہرین اپنی مصروفیات کو پبلک ریلیشنز، گورنمنٹ ریلیشنز، پبلک کمیونی کیشن اور پبلک ایڈووکیسی یا عوامی مفادات کے تحفظ کی وکالت جیسے نام دیتے ہیں۔ مقصد کوئی بھی ہو، کسی بھی شعبے میں لابی کرنا ایک ایسا کام ہے جو اکثر تنقید کی زد میں رہتا ہے اور عوامی حلقے ایسے ماہرین کو زیادہ تر شک و شبے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

قدیم روم کا لوبیہ

لابیئسٹوں کا تعلق ہمیشہ ہی سیاست سے رہا ہے۔ سلطنت روما کے دور میں ایسے افراد رومن سینیٹ کی عمارت سے متصل ایک بڑے ہال میں موجود رہتے تھے تاکہ سینیٹ کے ارکان کو اپنے اثر و رسوخ میں لے سکیں۔ یہ ہال ’لوبیہ‘ کہلاتا تھا اور اسی مناسبت سے بعد ازاں دنیا کی مختلف زبانوں میں لابی اور لابیئسٹ کے الفاظ وجود میں آئے۔ لغوی حوالے سے لابیئنگ یا لابی ازم کا مطلب ہے، سیاست میں ایک خاص شکل میں مفادات کی نمائندگی۔ یہ کام کرتے ہوئے لابیئسٹ مخصوص مفادات کے حامل اداروں، تنظیموں یا عوامی گروپوں کے ایماء پر ذاتی رابطوں کے ذریعے حکومتی نمائندوں اور پارلیمانی ارکان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کام کے بدلے ایسے ماہرین کو خطیر رقوم ادا کی جاتی ہیں۔

ریاست کا پانچواں ستون؟

لابیئنگ کے پیشے سے منسلک ماہرین ذرائع ابلاغ کے ذریعے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوششیں بھی کرتے ہیں تاکہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سیاستدانوں پر عوامی دباؤ میں بالواسطہ طور پر اضافہ کیا جا سکے۔ Lobbyist ٹریڈ یونینوں کے لئے بھی کام کرتے ہیں، انفرادی طور پر مختلف صنعتی شعبوں کے لئے بھی اور غیر حکومتی تنظیموں کے لئے بھی۔ ایسے ماہرین اپنے لئے ایڈوائزر یا کنسلٹنٹ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ آج جمہوری طرز حکومت والے معاشروں میں لابی ازم ایک شعبے کے طور پر اتنا بااثر ہے کہ صحافت کو اگر کسی بھی ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، تو لابیئسٹ اپنی طاقت کی بنا پر ریاست کا پانچواں ستون کہلاتے ہیں۔

Brüssel Andreas Ogrinz Bundesarbeitgeberverband Chemie
برسلز میں جرمن لابیئسٹ آندریاس اوگرِنس ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دیتے ہوئےتصویر: DW

کامیاب ترین جرمن لابی ساز

جرمنی کے کامیاب ترین لابیئسٹوں میں شمار ہونے والے ماتھیاس وِسمان ماضی میں وفاقی وزیر ٹرانسپورٹ رہ چکے ہیں۔ وہ آج کل جرمنی میں کارسازی کی صنعت کی ملکی تنظیم VDA کے صدر ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ اپنی مصروفیات کی وضاحت یوں کی تھی کہ وہ معیشی شعبے پر یہ واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیاست کس طرح کام کرتی ہے۔ اور سیاسی شخصیات کے سامنے انہیں لازمی طور پر یہ وضاحت کرنا ہوتی ہے کہ معیشت اپنی مجموعی کارکردگی میں مروجہ قوانین کے عین مطابق کام کرتی ہے۔ ماتھیاس وِسمان جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کے دور حکومت میں چھ سال تک وفاقی وزیر ٹرانسپورٹ رہے تھے۔ سن 2009 میں انہوں نے چانسلر انگیلا میرکل کی قیادت میں مخلوط حکومت کو اس امر کا قائل کیا کہ معاشی اور مالیاتی بحران کے دور میں کاروباری گہما گہمی اور کارسازی کی جرمن صنعت کو سہارا دینے کے لئے سکریپ پریمئیم شروع کیا جائے۔ اس پریمئیم کے تحت شہریوں کو اپنی دس سال سے پرانی کاریں ماحول دوست انداز میں ٹھکانے لگانے اور نئی گاڑیاں خریدنے کے لئے فی کس ہزاروں یورو کی مالی اعانت فراہم کی گئی۔ نتیجہ کئی ارب یورو مالیت کا ایک ایسا حکومتی پروگرام تھا، جو بین الاقوامی مالیاتی بحران کے اثرات کا مقابلہ کرنے میں جرمن معیشت کے لئے بڑا مددگار ثابت ہوا۔

امریکہ میں لابی ازم کو لازمی طور پر معمول کی سیاسی زندگی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ جرمنی میں اس شعبے کے ماہرین کو اکثر شبے کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ایسے ماہرین عوامی بہتری کے نام پر خاص طرح کے معاشی اور کاروباری مفادات کے تحفظ کا کام کرتے ہیں۔

Flash Wochenrückblick Bildergalerie für 07.08. 2009 Karlheinz Schreiber
کارل ہائنس شرائبر نامی جرمن لابیئسٹ کو سیاستدانوں کو غیر قانونی ادائیگیوں کے سلسلے میں اپنے خلاف قانونی کارروائی کا سامنا بھی ہےتصویر: AP

برسلز کے لابی ساز

گزشتہ برس جون میں ہونے والے یورپی پارلیمان کے انتخابات میں عوامی شرکت کا تناسب ریکارڈ حد تک کم رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ یورپی یونین کے رکن ملکوں کے شہری شاید یورپی پارلیمان کی اہمیت اور مقصدیت کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔ تب یورپی پارلیمان میں ترقی پسند ارکان کے دھڑے کے سربراہ گراہیم واٹسن تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ عوام نے بظاہر یورپی پارلیمان کی اہمیت کا اندازہ لگانے میں غلطی کی تھی۔ تاہم یورپ میں لابی کرنے والے ماہرین کو اس رجحان کا اندازہ لگانے میں کوئی دیر نہ لگی۔ ’’برسلز میں لابیئسٹوں کی تعداد امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ان کے ہم پیشہ ماہرین کی تعداد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ برسلز میں طاقت کا کھیل کس طرح کھیلا جاتا ہے۔ ہمیں لازمی طور پر ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ یورپی شہری بھی یہ بات سمجھ سکیں۔‘‘

برسلز میں لابی کرنے والے پندرہ ہزار ماہرین میں سے ایک آندریاس اوگرِنس بھی ہیں۔ وہ جرمنی میں کیمیکلز کی صنعت کے آجرین کی وفاقی تنظیم کے لئے لابیئنگ کرتے ہیں۔ ان کا دفتر برسلز میں اہم ترین یورپی اداروں کے قریب ہی واقع ہے۔ یورپی پارلیمان، یورپی کمیشن اور یورپی وزارتی کونسل کے مرکزی دفاتر کے عین نواح میں۔ وہیں پر وہ تمام اہم سیاسی شخصیات ہوتی ہیں جن سے آندریاس اوگرِنس رابطے میں رہتے ہیں۔

لیکن یورپی یونین میں ایک lobbyist کس طرح کام کرتا ہے؟ اس بارے میں آندریاس اوگرنس کہتے ہیں: ’’لابیئسٹ زیادہ تر دو کام کرتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ سیاست پر پوری نگاہ رکھتے ہیں۔ یعنی وہ اس بات کی ٹوہ میں رہتے ہیں کہ آئندہ دنوں اور مہینوں میں کیا کچھ ہونے والا ہے۔ یورپی پارلیمان اور وزراء کی کونسل کن اقدامات کی منظوری دینے والی ہے۔ ان لابیئسٹوں کی مصروفیات کا دوسرا پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام اہم فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں۔ یہ وہ پہلو ہے جس پر بالعموم سب سے زیادہ تنقید دیکھنے میں آتی ہے۔‘‘

Jack Abramoff in Washington
جیک ابراموف نامی کامیاب امریکی لابی سازجنہیں چندبرس قبل اپنے خلاف عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا اور جنہوں نے اپنے قصوروار ہونے کا اعتراف بھی کر لیا تھاتصویر: AP

منفی رائے

آندریاس اوگرِنس جانتے ہیں کہ کئی عوامی حلقوں میں اس پیشے اور ایسے ماہرین کے بارے میں پائی جانے والی رائے کافی منفی ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ کئی لابیئسٹوں کے بارے میں تو عام لوگ یہ جانتے ہی نہیں کہ وہ لابیئنگ کرتے ہیں۔

’’تحفظ ماحول سے متعلقہ حکومتی فیصلوں کے لئے راہ ہموار کرنے والے ماہرین بھی لابیئسٹ ہی ہوتے ہیں۔ یہ بات عوامی سطح پر اکثر مد نظر نہیں رکھی جاتی۔ اس لئے کہ وہ مخصوص مفادات، جن کا لابی کے کام کے ذریعے تحفظ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، وہ مفادات صرف صنعتی شعبے اور آجرین کی تنظیموں کے مفادات ہی نہیں ہوتے، بلکہ ان میں حقوق انسانی کے تحفظ کی کوششیں اور تحفظ ماحول سے متعلق ترجیحات جیسے امور بھی شامل ہوتے ہیں۔‘‘

اخلاقی حدود

لابی سازی کے شعبے سے متعلق عوامی سطح پر تنقیدی سوچ اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب یہ احساس بیدار ہوتا ہے کہ لابی کرنے والے سیاستدانوں کوخرید لیتے ہیں۔ لیکن آندریاس اوگرِنس کے بقول ان کے کام کی اخلاقی حدود بھی بڑی واضح ہیں۔ ’’جب کوئی لابیئسٹ کسی رکن پارلیمان کو کسی دورے یا سفر کی دعوت دیتا ہے، یا کسی بھی براہ راست یا بالواسطہ مالی فائدےکا وعدہ کرتا ہے، تو ظاہر ہے کہ یہ کسی بھی اہم شخصیت کی رائے پر اثر انداز ہونے کا غیر قانونی طریقہ ہے۔ میری نظر میں ایسا کوئی بھی کام لابیئنگ نہیں ہو سکتا۔ اسے صرف بدعنوانی کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔‘‘

برسلز میں صرف بڑے بڑے صنعتی اور کاروباری اداروں اور تنظیموں نے ہی اپنے لابیئسٹ نہیں بھیج رکھے، بلکہ بنیادی طور پر وہاں جرمنی کے کئی صوبوں کے ریاستی مفادات کی نمائندگی کرنے والے ماہرین بھی موجود ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ لابیئنگ کے اس کام کا کوئی فائدہ بھی ہے؟

آندریاس اوگرِنس کے بقول اس کام کا نتیجہ ضرور نکلتا ہے، لیکن یہ نتائج طویل المدتی اور بالواسطہ ہوتے ہیں۔ ’’اس کامیابی کا یہ پیمانہ غلط ہے کہ کئی لابیئسٹ خاص طرح کے سیاسی اقدامات کو اپنی کوششوں کا نتیجہ قرار دینے لگتے ہیں۔ برسلز میں فیصلہ سازی کا طریقہ کار انتہائی پیچیدہ ہے۔ لیکن پھر بھی اکثر لابیئسٹوں کو وہاں ہونے والی بحثوں میں خود اپنی رائے یا اپنے الفاظ کسی دوسرے کے منہ سے سننے کو ملتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ ایسی کسی بھی بحث سے قبل کوئی نہ کوئی لابیئسٹ متعلقہ سیاستدان یا شخصیت سے ملاقات کر چکا ہوتا ہے۔ اگر کوئی لابیئسٹ کسی فیصلہ ساز شخصیت کے ساتھ ملاقات میں اسے اپنے نقطہء نظرکا قائل کر لے، تو اسے متعلقہ lobbyist کی کامیابی کہنا ہی پڑے گا۔‘‘

تحریر: مقبول ملک

ادارت:عدنان اسحاق