جاپان میں سینڈائی جوہری پلانٹ پھر سے فعال
11 اگست 20152011 ء میں جاپان کی تاریخ کا بدترین ایٹمی حادثہ فوکو شیما ڈائچی کے جوہری پلانٹ میں پیش آیا تھا اُس کے بعد سے جاپانی عوام شدید خوف کا شکار ہے۔ پیر 11 اگست کو سینڈائی پاور ری ایکٹر کے کام کی بحالی عالمی وقت کے مطابق ڈیڑھ بجے صُبح عمل میں لائی گئی۔ سینڈائی ایٹمی پلانٹ جنوبی جزیرے کیوشو کے فعال ساکو راجیما آتش فشاں سے قریب 50 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم ہے۔
کیوشو الیکٹرک پاور کمپنی کے مطابق سینڈائی کے ایک پاور پلانٹ نے منگل سےدوبارہ کام کرنا شروع کردیا ہے۔ اس کمپنی نے کہا ہے کہ یہ پاور پلانٹ جمعے سے بجلی پیدا اور سپلائی کرنا شروع کر دے گا۔
جاپان میں توانائی کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیوں نے عوام کی سخت مخالفت کے باوجود 25 ری ایکٹروں کو پھر سے شروع کرنے کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ یاد رہے کہ زلزلے اور سونامی کے بعد فوکوشیما ڈائچی پلانٹ میں زہریلے مادے کا اخراج شروع ہوگیا تھا۔
وزیر اعظم شینزو آبے نے پیر کو کہا تھا کہ حکومت یہ چاہتی ہے کہ ری ایکٹروں کو ’دنیا کی سخت ترین حفاظتی جانچ پڑتال سے گزارنے کے بعد‘ پھر سے فعال کیا جائے۔
جاپان کے وزیر صنعت یوئیچی میازاوا نے اس موقع پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’ایک مستحکم عمل سے گزر کر اس ایٹمی پلانٹ کو دوبارہ فعال بنانا نہایت ضروری تھا۔ یہ جاپان کی اقتصادی ترقی اور جاپانی عوام کی خوش حالی اور مضبوطی کے لیے ناگزیر ہے‘‘۔
جاپانی وزیر نے تاہم کہا ہے کہ حکومت کسی ممکنہ حادثے کی صورت میں حالات سے نمٹنے کی پوری ذمہ داری لیتی ہے۔ اُدھر ناقدین کا کہنا ہے کہ 2011 ء میں فوکوشیما ڈائچی کے جوہری پلانٹ کے حادثے کی ذمہ داری بھی کسی نے نہیں لی تھی جبکہ 1986ء کے چرنوبل کے تاریخی جوہری سانحے کے بعد ڈائچی جوہری پالانٹ کا حادثہ سب سے بڑا اور نقصان دہ حادثہ تھا۔
2011 ء میں ڈائچی کے چھ نیوکلیئر اسٹیشنز میں سے تین سے تابکار مادے کا اخراج شروع ہو گیا تھا۔ حادثے کے بعد اب تک ایک لاکھ دس ہزار سے زائد جاپانی باشندے اپنے گھروں کو نہیں لوٹ سکے ہیں ان کے رہائشی علاقوں میں ریڈیو ایکٹیو مادے بُری طرح پھیلے تھے۔
فوکوشیما ڈائچی کے حادثے کے بعد جاپانی حکومت نے ملک کے جوہری پلانٹس کے لیے نئے قوانین وضع کیے۔ انہیں قوانین کے تحت سنڈائی ری ایکٹر کو دوبارہ سے چلایا گیا ہے۔ 47 دیگر یونٹس کا کام ہنوز معطل ہے کیونکہ تمام پاور کمپنیاں بجلی پیدا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ فوسیل فیول کی برآمدات پر انحصار کر رہی ہیں۔