1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جارجیا میں ستر سال بعد ایک خاتون کو سزائے موت

عاصمہ علی30 ستمبر 2015

امریکی ریاست جارجیا میں ستر برس کے بعد پہلی مرتبہ ایک خاتون کو سزائے موت دے دی گئی ہے۔ مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے بھی اس خاتون کے لیے رحم کی اپیل کر رکھی تھی۔

https://p.dw.com/p/1Gg9S
Symbolbild Todesstrafe USA
تصویر: imago/blickwinkel

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی اطلاعات کے مطابق سینتالیس سالہ کیلی جزینڈینر نے زہریلا انجکشن لگنے سے پہلے ایک بیان دیا اور عبادت کرنے کی درخواست بھی کی۔ اس خاتون کو اپنے شوہر کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کی بنیاد پر 1997ء میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔

جارجیا کے محکمہ جیل خانہ جات کے ترجمان گوینڈولین ہوگن کے مطابق، ’’بدھ کو رات 12 بج کر 21 منٹ پر قانون کے مطابق خاتون کو زہریلے انجکشن کے ذریعے موت دے دی گئی۔‘‘

اس امریکی جنوبی ریاست میں سن 1945ء کے بعد یہ پہلی خاتون ہیں، جن کو پھانسی کی سزا دی گئی ہے۔ اسی طرح مجموعی طور پر امریکا میں 1976ء بعد یہ سولہویں خاتون تھیں، جس کو موت کی سزا دی گئی ہے۔

اس مجرمہ کو موت کی سزا منگل کے روز دی جانی تھی لیکن اس میں تاخیراس لیے ہوئی کہ ان کے وکلاء کی طرف سے جارجیا اور امریکی سپریم کورٹ میں رحم کی اپیل کی گئی تھی، جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

تاہم اس دوران کیلی کے درجنوں حامی اور سزائے موت کے مخالف جیل کے باہر منتظر کھڑے رہے جبکہ کیلی جزینڈینر اندر اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظا کر رہی تھی۔

ایک کیھتولک نن اور سزائے موت کی مخالف وکیل ہیلن پریجین نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا ہے کہ ’’اگر آپ ثبوت چاہتے ہیں کہ سزائے موت ایک تشدد ہے تو کیلی جزینڈینر کی طرف دیکھیے جو کہ گھنٹوں سے اس انتظار میں ہیں کہ کیا وہ زندہ رہیں گی یا نہیں۔‘‘

پوپ فرانسس کی طرف سے پچھلے ہفتے امریکی کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے سزائے موت کے عالمی سطح پر خاتمے کے مطالبے کے بعد یہ پہلی امریکی قیدی تھی، جس کو موت کی سزا دی گئی۔

پوپ کے ذاتی نمائندے آرچ بشپ کارلو ماریا ویگانو نے کیلی کی سزا کو تبدیل کر نے کے لیے ایک خط جارجیا کے پے رول بورڈ کو بھیجا تھا، جس میں لکھا تھا کہ ’’جب آپ پوپ فرانسس کی اس اپیل کو منظور کریں گے تو برائے مہربانی میری ان دعاؤں کو بھی یاد رکھیے گا اور یہ آپ کی طرف سے معافی کا ایک اقدام ہوگا۔‘‘

رواں مہینے کے شروع میں کیلی جزینڈینر کی ایک بیٹی اور دو بیٹوں نے بھی ایک بیان میں حکام پر زور دیا تھا کہ ان کی ماں کی جان بخش دی جائے، ’’ہم اپنے باپ کو کھو چکے ہیں لیکن ماں کو کھونے کا تصور بھی نہیں سکتے۔‘‘

اس ہفتے دو اور قیدیوں کو بھی موت کی سزا دی جائے گی جس میں رچرڈ گلوسپ اور ایک تارک وطن الفریڈو پریٹو شامل ہیں لیکن ان کو موت کی سزا سے بچانے کے لیے ایک ایسی نئی مہم کا آغاز کیا جا رہا ہے، جس میں بہت سی اہم شخصیات بھی شامل ہیں۔