1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تین اکتوبر، جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے اٹھارہ سال

3 اکتوبر 2008

جرمنی کے مشرقی اور مغربی حصے کے دوبارہ اتحاد کے واقعے کو آج اٹھارہ برس پورے ہو رہے ہیں۔ سالگرہ کی مرکزی تقریب بندرگاہی شہر ہیمبرگ میں منعقد ہو گی جس میں وفاقی جرمن صدر ہورسٹ کوہلر اور چانسلر انگیلا میرکل بھی شریک ہوں گی۔

https://p.dw.com/p/FT9n
تین اکتوبر سن1990ء کا ایک یادگار منظر، برلن پارلیمان کی عمارت کی بالکنی پر اُس وقت کے چانسلر ہیلمٹ کوہل کے ساتھ ساتھ سابق جرمن چانسلر ولی برانٹ بھی نظر آ رہے ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

اِس کے بعد ہیمبرگ ہی میں اتوار تک جاری رہنے والے ایک عوامی میلے میں متحدہ جرمنی کے تمام سولہ صوبوں کو نمائندگی حاصل ہو گی۔ جرمن آئین کی رُو سے اٹھارہ سال کی عمر کا شخص بالغ تصور کیا جاتا ہے، کیا متحدہ جرمنی میں بھی اٹھارہ سال بعد بلوغت آ گئی ہے۔ اِس موضوع پر ڈوئچے ویلے کے Felix Steiner اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں:

’’ملک کا صدر مقام برلن ہی کیوں نہ کہلاتا ہو، اِس سالگرہ کی تقریب ہر بار کہیں اور ہی منعقد کی جاتی ہے۔ گذشتہ برس یہ تقریب شہرSchwerin میں ہوئی، آئندہ برس زاربرُکن میں ہو گی جبکہ اِس سال یہ اعزاز ہیمبرگ کے حصے میں آیا ہے۔

جرمنی میں اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے والے شہری اپنی سالگرہ بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ اِس کے برعکس ہر سال کی طرح اِس بار بھی جرمن اتحاد کی سالگرہ سادگی اور کسی حد تک شرمندگی کے ایک احساس کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ نہ تو کوئی پالیسی تقاریر ہوں گی اور نہ ہی کوئی عوامی جشن۔ فوجی پریڈ بھی نہیں ہو گی، جو یورپ کے دیگر ممالک میں ایک مسلمہ امر ہوتی ہے۔ ہیمبرگ میں محض ایک عوامی میلے کا سا سماں ہو گا، جس میں جرمن پرچم کے تین رنگ، سیاہ، سرخ اور سنہری بھی زیادہ نمایاں نہیں کئے جائیں گے۔

یہ ساری چیزیں اُن خدشات کی سختی سے تردید کرتی ہیں، جن کا اظہار 1990ء میں جرمنی کے اتحاد کے موقع پر کیا گیا تھا۔ کہا گیا کہ اب جرمن قوم پرستی کا احیاء ہو گا اور یورپ کے عین وَسط میں واقع آبادی اور معیشی ترقی کے لحاظ سے یہ سب سے بڑا یورپی ملک اپنے ہمسایہ ممالک اور یورپی یونین کے اندر بالادستی حاصل کرنا چاہے گا۔

یہ تمام خدشات اِس لئے بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں کیونکہ 1990ء میں ہونے والے اِس اتحاد کا مطلب 1945ء میں منقطع ہونے والی روایت کو آگے بڑھانا تھا ہی نہیں۔ تب ایک ایسی نئی متحد ریاست وجود میں آئی، جو 1933ء سے 1945ء تک جرمن تاریخ میں پیش آنے والے ہولناک واقعات اور تباہ کن عالمی جنگ کے تجربات سے مکمل طور پر آگاہ تھی۔

تبھی تو آج کا جرمنی ملک سے باہر اپنے فوجی بھیجنےاور افغانستان یا پھر خطہء بلقان میں اپنے فوجی مشنوں پر ہر طرح کی سماجی بحث سے ہچکچاتا ہے۔

اب ایک ایسا جرمن معاشرہ وجود میں آ چکا ہے، جس نے یہ بات سیکھ لی ہے کہ خوشحالی کے لئے امن ضروری ہے اور سب سے زیادہ خوشحالی ساتھی ممالک کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے حاصل کی جا سکتی ہے، نہ کہ اُن کے ساتھ لڑ کر۔

نہیں، آج کا متحد جرمنی کوئی ایسا ملک نہیں ہے، جس سے اُس کے ہمسائے خوف محسوس کریں۔ آج کا جرمنی بالغ ہو چکا ہے۔‘‘