تیل کی آسمان چھورہی قیمتیں
9 جون 2008کہا یہ جاتا ہے کہ چین جیسے ممالک کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بڑی مقدار میں تیل ہڑپ کر رہی ہیں جبکہ تیل پیدا کرنے والے ملک اس تیزی سے اپنی پیداوار میں اضافہ نہیں کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کہ تیل صاف کرنے والے کارخانوں کی گنجائش میں پچھلے کئی برسوں سے اضافے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔
اس کے باوجود گزشتہ ہفتے خام تیل کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ ناقابل فہم ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہےکہ یورپی مرکزی بنک کی جانب سے شرح سود میں کمی کے عندیہ کے بعد یورو کے مقابلے میں ڈالر کی قدر وقیمت میں کمی دیکھی گئی جس کے نتیجے میں بین الاقوامی منڈیوں میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
بہرحال یہ تو ایسا ہی ہے جیسے اپنی ہی پیشنگوئی پوری ہو رہی ہوکیوں کہ جب سبھی یہ کہ رہے ہوں کہ تیل مہنگا ہو رہا ہے تو پھر وہ واقعی مہنگا ہو جاتا ہے۔ اسٹاک کی منڈیوں میں داﺅ لگانے والے بڑھتی ہوئی قیمتوں پر داﺅ لگا رہے ہیں اور یوں دونوں ہاتھو ں سے دولت سمیٹ رہے ہیں۔ آئندہ بھی وہ اپنی اس روش سے باز نہیں آئیں گے۔
دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر موجود تیل اور گیس کی قیمتیں آسمان کو چھو لینگی۔
یورپ میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں مستحکم یورو کی وجہ سے کسی حد تک قابو میں رہ سکتی ہیں لیکن دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت‘ امریکہ کو تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ چین‘ روس اور بھارت جیسے ممالک کی تیز رفتار معیشتیں بھی ان جھٹکوں کو برداشت نہیں کر پارہی ہیں۔
تیل اور گیس کے ذخائر کم ہوتے ہوتے ایک دن ختم ہو جائیں گے۔ چنانچہ متبادل توانائی کی تلاش کا کام تیز تر کر دینا چاہیے۔ شمسی‘ آبی‘ اور ہوا کی توانائی اور زمینی حدت کی شکل میں قدرتی توانائی کے بے پناہ خزائن موجود ہیں۔
تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا ہر جھٹکا ہمیں متبادل توانائی کی تلاش کی ترغیب دیتا ہے۔ ترقی پذیر ملکوں کو چاہیئے کہ وہ گیس اور تیل پر زیادہ انحصار نہ کریں بلکہ ابھی سے ہی متبادل توانائی کے ذخائر پر اپنی توجہ مرکوز کر دیں۔ خواہ وقتی طور پر یہ مہنگے ہی کیوں نہ پڑیں!