1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تھیلو زاراسین کی عہدے سے برطرفی: ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

3 ستمبر 2010

سوال لیکن یہ ہے کہ ہر وقت نکتہ چینی کے لئے بدنام اور ہمیشہ اشتعال انگیز بیانات دینے والے ایک شخص کے خلاف اس کامیابی کا فائدہ کیا ہو گا؟

https://p.dw.com/p/P3Wp
تھیلو زاراسین ایک ٹی وی شُو میںتصویر: picture-alliance/dpa

جرمنی میں آباد تارکین وطن مسلمانوں اور یہودیوں کے خلاف متنازعہ بیان دینے پر جرمنی کے مرکزی بینک ’ ڈوئچے بنک ‘ کے بورڈ کے ایک رکن تھیلو زاراسین کو غالباً اپنے عہدے سے محروم ہونا پڑے گا۔ زاراسین کے ساتھی اور ڈؤئچے بنک کے بورڈ کے دیگر اراکین نے گزشتہ روز متفقہ طور پر وفاقی جرمن صدر کرسٹیان وولف سے زاراسین کی بر طرفی کی درخواست کر دی تھی۔ تھیلو زاراسین کی کتاب "Germany Does Itself In" جرمنی کے سماجی اور سیاسی حلقوں میں گرما گرم بحث کا باعث بنی ہے۔ جرمن معاشرے میں تارکین وطن کے انضمام کے ضمن میں اِس کتاب پر بہت زیادہ تنقید کی جا رہی ہے۔ اس بارے میں ڈوئچے ویلے کے مارسل فُورسٹناؤ اپنے تبصرے میں تحریر کرتے ہیں ’جرمنی کے مرکزی بینک کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی حیثیت سے تھیلو زاراسین کا کیرئیر عملاً ختم ہو چکا ہے۔ اگرچہ وفاقی جرمن صدر کرسٹیان وولف کی طرف سے زاراسین کی برطرفی کے فیصلے کا سرکاری طور پر اعلان ابھی باقی ہے تاہم یہ ایک طے شدہ معاملہ ہے کیوں کہ جرمن صدر بینک کے بورڈ کے فیصلے سے پہلے ہی زاراسین کے اُن متنازعہ بیانات پر کڑی تنقید کر چکے تھے، جن میں اُنہوں نے تارکین وطن مسلمانوں کی ذہانت اور مسلم گھرانوں میں بچوں کی پیدائش کی بلند شرح کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اِس طرح گویا جرمن صدر نے بھی زاراسین کو بینک کے اُس عہدے سے ہٹانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے، جس پر زاراسین مئی 2009 ء میں فائز ہوئے تھے۔

Buch von Thilo Sarrazin Deutschland schafft sich ab
زاراسین کے متنازعہ خیالات اُن کی ایک کتاب میں چھپے ہیںتصویر: AP/DW-Fotomontage

زارسین کے مخالفین نے، جو تعداد میں بہت زیادہ ہیں، اِس پیشرفت پر اطمینان کا سانس لیا ہے۔ سوال لیکن یہ ہے کہ ہر وقت نکتہ چینی کے لئے بدنام اور ہمیشہ اشتعال انگیز بیانات دینے والے ایک شخص کے خلاف اس کامیابی کا فائدہ کیا ہو گا؟ غالباً اُس سے کم، جتنا کہ لوگ سمجھ رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ زاراسین نے تعلیم کی کمی والے تارکین وطن گھرانوں کے ماحول، خاص طور سے ترک اور عرب مسلم گھرانوں کی جو منظر کشی کی ہے، وہ حقیقت سے بہت دور بھی نہیں اور اسی لئے زاراسین کے ناقدین بھی ان باتوں کی تردید نہیں کرتے۔ دوسرے یہ کہ اس بات کی کم ہی امید کی جا سکتی ہے کہ تارکین وطن کا تمسخر اڑانے والے زاراسین مستقبل میں اپنی زبان پر قابو رکھیں گے۔ انہیں اپنے عہدے پر فائز نہ رہتے ہوئے بھی مختلف ٹاک شوز اور پوڈیم مباحثوں میں خیالات کے اظہار کا موقع فراہم کیا جاتا رہے گا۔

زاراسین پر حالیہ تنقید اس لئے کی جا رہی ہے کہ انہوں نے اپنے مبالغہ آمیز خیالات اور غیر مصدقہ دعووں کے ذریعے جرمنی میں تارکین وطن سے متعلق بحث کو غیر ضروری طور پر نقصان پہنچایا ہے۔ ترک وطن اور انضمام جیسے حساس اور جذباتی موضوع کو گلیوں بازاروں میں ہونے والے بحث و مباحثے کی شکل دے کر عوام تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ یہ خیال اُن تمام لوگوں کا ہے، جو زاراسین کے برعکس اس اہم موضوع کو اشتعال انگیزی سے ہٹ کر ایک سنجیدہ طریقے سے زیر بحث لانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ زارسین کی کتاب کی اشاعت سے بھی پہلے جن لوگوں نے اِس کے اقتباسات ضمیموں اور سنسنی خیز اخباروں میں شائع کئے ہیں، اُن کا مقصد جرمنی میں تارکین وطن کے انضمام کے مسئلے کو حل کرنا نہیں بلکہ اسے ممکنہ حد تک اشتعال انگیز بنانا اور اپنی انا کو تسکین پہنچانا ہے۔

Interkulturelle Schule Bild 5
جرمنی میں نارکین وطن مسلم گھرانوں میں تغلیم کی کمی ایک اہم سماجی مسئلہ ہےتصویر: Ludolf Dahmen

ایک کامیاب انضمام کے لئے سب کو صبر اور ارادے کی پختی کی ضرورت ہو گی۔ یہ بات جہاں ایک طرف جرمن حکومت اور معاشرے کے لئے کہی جا سکتی ہے، وہیں ظاہر ہے تارکینِ وطن اور اُن کی اگلی نسل بھی اِس کا مخاطب ہیں۔

تھیلو زاراسین نے جن حالات کی نشاندہی کی ہے، اُنہیں درست کرنے میں جرمن سیاستدانوں کو جس عزم اور جس فیصلہ کن طرزِ عمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا، وہ گزستہ کئی برسوں سے دیکھنے میں نہیں آ رہا۔

زاراسین کے معاملے میں یہ بات بھی افسوس کا باعث رہے گی کہ اُنہیں اپنی ملازمت سے سیاسی دباؤ کے باعث محروم ہونا پڑا۔ کہیں بہتر ہوتا کہ جرمن بینک اپنے ادارے کے اخلاقی ضوابط کا حوالہ دیتے ہوئے بہت پہلے ہی زاراسین کو اُن کے عہدے سے سبکدوش کر دیتا۔

تبصرہ: مارسل فورسٹناؤ/ تحریر کشورمصطفیٰ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں