1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تمام مسائل کا حل بین الاقوامی اشتراک عمل سے ممکن: اوبامہ

کشور مصطفیٰ25 جولائی 2008

امریکی سیاہ فام سینیٹر، باراک اوبامہ جرمنی کا دورہ مکمل کرکے اب اپنی اگلی منزل فرانس پہنچ گئے ہیں۔ صدارتی عہدے کے مضبوط دعوے دار اوبامہ نے یورپ اور امریکہ کے اور قریب آنے کی وکالت کی۔

https://p.dw.com/p/Ejjn
’ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار باراک اوبامہ نے برلن میں اپنی تقریر سے جرمن عوام کا دل جیت لیا‘تصویر: AP

ڈیموکریٹ رہنما اوبامہ نے جمعرات کی شب جرمن دارالحکومت برلن میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ عالمی سیاسی اہمیت کے حامل اہم ترین موضوعات پر اوباما نے عوام کے دلوں پر اثرانداز ہونے والی تقریر کی۔

ان کی تقریر اور بیانات پر جرمنی کی طرف سے مثبت رد عمل سامنے آیا۔ باراک اوباما نے جرمن عوام کا دل جیت لیا ہے۔ ان کے برلن کے دورے کو ایک بڑی کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔

اوبامہ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’اکیسویس صدی کے تمام مسائل کا حل محض بین الاقوامی اشتراک عمل سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔‘

Bildgalerie Obama in Berlin Händedruck mit der Kanzlerin
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے باراک اوبامہ کا استقبال کیاتصویر: AP

وفاقی جرمن حکومت نے امریکی ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار باراک اوباما کے برلن عوامی خطاب کو مثبت قرار دیا ہے۔ اوباما کے خطاب پر برلن حکومتی کے سرکاری ردعمل کے بارے میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومتی ترجمان Ulrich Wilhelm نے کہا: ’’ باراک اوبامہ کی تقریر وفاقی چانسلر انگیلا میرکل کے نزدیک جرمنی کے موقف کے عین مطابق ہے۔‘‘

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نےاوباما کی تقریر کو یورپ کے لئے ایک مثبت سگنل قرار دیا ہے۔ جرمن چاسلر انگیلا میرکل اوباما کے اس بیان کوجرمنی کے موقف کے عین مطابق سمجھتی ہیں کہ : اکیسویں صدی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی اشتراکِ عمل ناگزیرہے۔ حکومنی ترجمان کے مطابق جرمن حکومت اوباما کے اس بیان سے مکمل اتفاق کرتی ہے کہ عالمی تنازعات، ماحولیات کی آلودگی کے خلاف جنگ، تخفیف اسلحہ کی پالیسی اور عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسے مسائل کا حل کسی ایک ملک کے بس میں نہیں ہے۔ یہ بین الاقوامی تنظیموں کے باہمی تعاون سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ تاہم برلن حکومت کے ترجمان نے افغانستان میں جرمن فوج کی سرگرمیوں میں اضافےپر اوباما کے بیان کے بارے میں ایک بار پھر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سلسسلے میں جرمن حکومت نے اپنی استطاعت کے مطابق ممکنہ اقدامات کئے ہیں۔

BdT, Barack Obama in Berlin
صدارتی عہدے کے مضبوط دعوے دار باراک اوبامہ برلن میں اپنے مداحوں کی طرف ہاتھ ہلارہے ہیںتصویر: AP

مخلوط حکومت کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ایس پی ڈی کے پارلیمانی دھڑے کے خارجہ پالیسی کے ماہر Gert Weisskirchen نے اوباما کے برلن عوامی خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’جس طرح برلن میں اپنی تقریر سے اوباما نے عوام کا دل جیتا ہے، اس سے یوں لگتا ہے کہ اگر وہ جرمنی میں صدارتی انتخاب لڑتے تو یقیناً انہیں کامیابی حاصل ہوتی۔ میرا خیال ہے اوباما پہلے سیاہ فام امریکی صدر بن سکتے ہیں۔

ادھر حکمراں کرسچن ڈیموکریٹک یونین، سی ڈی یوکے پارلیمانی دھڑے کے خارجہ پالیسی امور کے ترجمانEckart Von Klaeden کے مطابق اوباما کی تقریر ایک خالص امریکی سیاستدان کی سوچ کی عکاسی ہے۔ ان کے خیال میں جو کچھ ڈیمو کریٹ لیڈر اوباما نے کہا رپبلکنز اس سے پوری طرح متفق ہونگے۔

اوباما اب فرانس میں صدر نیکولاس سارکوزی کے ساتھ پیرس اور واشنگٹن کے مابین تعلقات کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں۔ فرانس کے بعد اوبامہ کی اگلی منزل برطانیہ کا دارالحکومت لندن ہے، جہاں وہ برطانوی وزیر اعظم گارڈن براٴون کے ساتھ ملاقات کرنے والے ہیں۔