1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تلور کا شکار: عدالتی انصاف یا شہزادوں کی خواہش کا احترام؟

شکور رحیم 22 جنوری 2016

پاکستانی سپریم کورٹ نے اپنے ہی فیصلے کے خلاف درخواستوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے کثرت رائے سے نایاب پرندے تلور کے شکار پر عائد پابندی ختم کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hi6u
تصویر: Getty Images/Afp/Karim Sahib

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے تلور کے شکار پر پابندی کے خلاف وفاقی کے ساتھ ساتھ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کی نظر ثانی کی درخواستوں پر دو جنوری کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ پانچ رکنی بینچ میں شامل سینیئر جج جسٹس ثاقب نثار نے تلور کے شکار پر پابندی کے خاتمے کا اپنا تحریر کیا ہوا فیصلہ جمعے کی صبح کھلی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ فیصلے کے مطابق پاکستان کے آئین کی بنیاد اختیارات کی تثلیث پر ہے۔ ریاست کے ہر ستون کا اپنا دائرہ اختیار ہے اور وہ دوسرے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ عدالت کا کام قانون کی تشریح کرنا ہے نہ کہ قانون سازی کرنا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون کا جائزہ لے کر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تلور پر مستقل پابندی مقصود نہیں۔ صوبائی قوانین میں تلور کو قابل شکار پرندہ قرار دیا ہے۔ فیصلے کے مطابق یہ صوبوں کی صوابدید ہے کہ وہ کس پرندے کے شکار پر پابندی لگائے اور کس پرندے کے شکار کی اجازت دیں۔ حکومت کی جانب سے شکار کے لیے پرمٹ جاری کرنے کے طریقہ کار سے عدالت کو آگاہ نہیں کیا گیا اور اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ تلور کے شکار پر پابندی کے خاتمے کے لیے پانچ میں سے چار ججوں نے فیصلہ دیا جبکہ ایک جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔

Kragentrappe Vogel
تصویر: Wikipedia/Jimfbleak

جسٹس قاضی فائز عیسی اس تین رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں گزشتہ سال اگست میں ملک بھر میں تلور کے شکار پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ عدالت نے یہ فیصلہ تلور کے غیر قانونی شکار کو روکنے کے لیے ایک بزنس مین عامر ظہور الحق کی درخواست پر دیا تھا جب کہ عدالت نے تلور کے شکار پر پابندی کے سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلوں کے اجازت خلاف صوبائی حکومتوں کی اپیلیں بھی خارج کر دی تھیں۔ جمعے کو عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں تلور کے شکار پر عائد پابندی کے خلاف صوبائی حکومتوں کی اپیلوں کو دوبارہ سماعت کے لیے منظور کر لیا۔

اس مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے تلور کے شکار کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ تلور کے شکار سے نہ صرف پاکستان کے لیے عرب ممالک کی خیر سگالی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ خلیجی ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری بھی کرتے ہیں۔ عدالت کو آگاہ کیا گیا تھا کہ تلور کو پاکستان میں معدوم ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے بھی وکلاء نے تلور کے شکار پر سے پابندی اٹھانے کے حق میں دلائل دیے تھے۔ عدالتی فیصلے پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ عالمی معاہدوں کے تحت حکومت پاکستان تلور کے شکار کی اجازت نہیں دے سکتی۔

سپریم کورٹ میں تلور کے شکار پر پابندی کے حق میں ایک درخواست گزار کی پیروی کرنے والے وکیل راجہ فاروق کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے سے تلور کی نسل کو معدوم ہونے سے بچانے کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بون کنونشن اور اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تحفظ اور دیگر عالمی معاہدوں کے تحت نایاب نسل کے پرندوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے کہا،"وفاقی اور صوبائی حکومتیں پہلے ہی ان معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہی تھیں اور اب عدالتی فیصلے کے بعد انہیں ایسا کرنے کے لیے کھلی چھوٹ مل جائے گی۔" انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تلور پر پابندی عائد کرنے کے پہلے فیصلے کو جانوروں اور پرندوں کے تحفظ کے لیے کام کرنیوالوں کی طرف سے عالمی سطح پر پذیرائی ملی تھی۔

Oberster Gerichtshof von Pakistan in Islamabad
تصویر: picture-alliance/dpa

ہر سال ستمبر سے فروری کے دوران سائبیریا سے ہزاروں کی تعداد میں تلور ہجرت کر کے پاکستان کے چاروں صوبوں کے مخلتف علاقوں میں موسم سرما گزارنے آتے ہیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق ہجرت کرنے والے ان پرندوں کی تعداد عام طور پر آٹھ سے دس ہزار تک ہوتی تھی جو اب کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں آنے والے پرندوں میں سے ہزاروں کو مقامی اور غیر ملکی شکاریوں خصوصاﹰ خلیجی ممالک کے شاہی خاندانوں کے ارکان کی طرف سے شکار کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔

راجہ فاروق کے مطابق سن دو ہزار چودہ میں دفتر خارجہ نے تلور کے شکار کے لیے تینتیس پرمٹ جاری کیے۔ ایک پرمٹ میں ایک سو پرندوں کے شکار کی اجازت ہوتی ہے۔ راجہ فاروق کے مطابق صرف ایک دن میں بائیس سو تلور شکاریوں کا نشانہ بنے۔

پاکستان میں تلور کے شکار کے لیے نہ صرف بندوقوں کا استعمال کیا جاتا ہے بلکہ عرب شہزادے اپنے ہمراہ لائے جانے والے باز بھی تلور کے شکار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جنگلی حیات اور پرندوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق مارے جانے والے تلور کے علاوہ عرب شکاری بہت سے تلور اپنے ہمراہ زندہ بھی لے جاتے ہیں جنہیں شکاری بازوں کو سدھانے اور شکار کی تربیت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔