1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک کی ساحلی چٹانوں میں پھنسے درجنوں مہاجرین

عاطف توقیر
14 دسمبر 2017

ترک کوسٹ گارڈز ان درجنوں تارکین وطن کو ریسکیو کرنے میں مصروف ہیں، جو بحیرہء ایجیئن کے راستے یونان جانا چاہتے تھے، تاہم ان کی کشتی ڈوب گئی۔

https://p.dw.com/p/2pNlx
Türkische Küstenwache rettet 68 Geflüchtete aus dem Mittelmeer
تصویر: picture alliance/abaca/C. Oksuz

ترکی کے سرکاری میڈیا کے مطابق مغربی ترک ساحلی علاقےمیں کشتی کو حادثہ پیش آ جانے کے بعد درجنوں تارکین وطن اس چٹانی علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں، جنہیں بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

ترکی: زنجیروں میں جکڑے 57 پاکستانی تارکین وطن بازیاب

ساٹھ مہاجرین کو ڈوبنے سے بچا لیا گيا

’بحیرہ روم، دنیا کی سب سے خطرناک اور جان لیوا سرحد‘

بتایا گیا ہے کہ ربر کی کشتی پر 51 تارکین وطن سوار تھے، مگر  بحیرہء ایجیئن میں ترک علاقے ڈیکِیلی کے قریب یہ کشتی ڈوب گئی۔

ٹی وی پر نشر کیے جانے والے مناظر میں دکھایا گیا ہے کہ درجنوں تارکین وطن چٹانی سمندری علاقے میں مدد کے طالب ہیں، جب کہ ان کو ریسکیو کرنے کی کارروائیوں میں ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔

ترک میڈیا کا کہنا ہے کہ  اس آپریشن میں سب سے پہلے چار بچوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے سمندر سے نکالا گیا اور انہیں دوبارہ ڈیکیِلی کی بندرگاہ پر لایا گیا۔

فی الحال ان تارکین وطن کی شہریتوں کے بارے میں اطلاعات سامنے نہیں آئی ہیں۔ ٹی وی پر نظر آنے والے مناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تباہ ہونے والی ربر کی کشتی کے ساتھ چٹانوں میں بہت سے تارکین وطن موجود ہیں، تاہم اس حادثے میں کسی شخص کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے نہیں آئی ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ سن 2015ء میں ترکی سے بحیرہء ایجیئن ہی کے راستے قریب ایک ملین افراد یونان پہنچنے تھے اور اسے دوسری عالمی جنگ کے بعد مہاجرین کا سب سے بڑا بحران قرار دیا جاتا ہے۔

ترکی سے رومانیہ ، مہاجرت کا ایک خطرناک راستہ

ترکی اور یورپی یونین کے درمیان مارچ 2016ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت ترکی کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ اپنے ہاں سے تارکین وطن کو بحیرہء ایجیئن عبور کرنے سے روکے جب کہ اس کے بدلے اسے مالی مدد سمیت متعدد مراعات دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

اس ڈیل کے بعد تارکین وطن کی اس راستے سے یورپ آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی تھی مگر کچھ تارکین وطن اب بھی یونان پہنچنے کے لیے اسی راستے کا استعمال کرتے ہیں۔