1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی کے لیے ویزا فری انٹری میں تاخیر ہو جائے گی، میرکل

عاطف توقیر23 مئی 2016

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے ترک شہریوں کو شینگن ممالک میں سفر کے لیے ویزا کی پابندی کا خاتمہ تاخیر کا شکار ہو جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1ItBr
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

میرکل کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہے، جب یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ انقرہ حکومت اس مقصد کے لیے یورپی یونین کی شرائط پر عمل درآمد میں کامیاب نہیں ہو پائے گی۔

پیر کے روز ترک شہر استنبول میں میرکل نے ترک صدر رجب طیب ایردآن سے ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ترک شہریوں کے لیے شینگن ممالک میں بغیر ویزا سفر پر پابندی کا خاتمہ جلد ممکن نہیں ہو گا۔ اس سے قبل اس سلسلے میں جولائی تک کا وقت مقرر کیا گیا تھا۔

میرکل نے استنبول میں اقوام متحدہ کے زیرنگرانی منعقد کی گئی ہیومینیٹیرین سمٹ کے حاشیے پر ترک صدر سے ملاقات کی۔

واضح رہے کہ ترکی اور یورپی یونین کے درمیان مہاجرین کے موضوع پر طے پانے والی ڈیل کے تحت انقرہ حکومت نے ترک سرزمین کا استعمال کر کے بحیرہٴ ایجیئن کے راستے غیرقانونی طور پر یورپ پہنچنے والے مہاجرین کو قبول کرنے پر اتفاق کیا تھا، جب کہ اس کے بدلے یورپی یونین نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ترک شہریوں کے لیے شینگن ممالک کے سفر کے لیے ویزا کی شرط ختم کر دے گی۔ اس کے علاوہ ترکی کو مالی معاونت کے ساتھ ساتھ یونان سے واپس ترکی بھیجے جانے والے ہر مہاجر کے بدلے ترکی میں مقیم ایک شامی باشندے کو یورپ میں بسانے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔

Deutschland Bundeskanzlerin Angela Merkel
انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے ترک شہریوں کو شینگن ممالک میں سفر کے لیے ویزا کی پابندی کا خاتمہ تاخیر کا شکار ہو جائے گhتصویر: Reuters/H. Hanschke

اس معاہدے کے بعد یورپی یونین ویزا فری انٹری کے لیے ترک حکومت کو شرائط کی ایک فہرست مہیا کر چکی ہے، جس میں دستوری تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ وہاں انسانی حقوق اور آزادیء رائے کی صورت حال بہتر بنانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔

میرکل نے پریس کانفرنس میں کہا، ’’اس سلسلے میں میرے سوالات کے جوابات ابھی نہیں ملے۔‘‘

یورپی یونین کی طرف سے کیے جانے والے مطالبات میں ایک مطالبہ ترکی کا انسدادِ دہشت گردی کا وہ متنازعہ قانون بھی ہے، جس کے بارے میں برسلز حکام کا خیال ہے کہ انقرہ حکومت اسے سیاسی ناقدین اور مخالفین کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ ادھر ترک صدر ایردوآن دو ٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک اس قانون میں کسی صورت میں تبدیلی نہیں کرے گا۔

خبر رساں ادارے ڈی پی اے کا کہنا ہے کہ ترک حکام اشارے دے رہے ہیں کہ اگر اس ڈیل پر عمل درآمد نہ ہوا، تو ترکی مہاجرین کو ایک مرتبہ پھر یورپ کے لیے سفر شروع کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔