1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں 73 پائلٹوں کی گرفتاری کے احکامات، سرکاری میڈیا

عاطف بلوچ، روئٹرز
27 اکتوبر 2016

ترکی کے سرکاری میڈیا کے مطابق جولائی میں ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام میں ملکی فضائیہ کے 73 پائلٹوں کو حراست میں لینے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2RmWj
Wahl in der Türkei AKP gewinnt deutlich
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Bozoglu

سرکاری میڈیا کے مطابق ان میں سے 45 کو جمعرات کے روز پولیس نے ملک کے وسطی صوبے کونیا اور دارالحکومت انقرہ سمیت ترکی بھر میں چھاپوں کے دوران حراست میں لیا  ہے، جب کہ اس سے قبل 29 پائلٹوں پر باقاعدہ فرد جرم عائد کی جا چکی ہے۔ ان گرفتاریوں کے احکامات ملک کے دفترِاستغاثہ کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں۔ ترک میڈیا کے مطابق یہ تازہ گرفتاریاں ناکام بغاوت میں ملوث سرکاری عہدیداروں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کا حصہ ہیں۔

ترک سرکاری خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق ان پائلٹوں پر شک ہے کہ ان کا تعلق فتح اللہ گولن کی تحریک سے ہے۔ ترک مبلغ فتح اللہ گولن گزشتہ کئی برسوں سے امریکا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انقرہ حکومت کا الزام ہے کہ 15 جولائی کو ملکی فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضے کی کوشش گولن ہی کے احکامات پر عمل میں آئی، تاہم فتح اللہ گولن ان الزامات کو مسترد کرتے ہین۔

ان تازہ گرفتاریوں کے لیے جاری کردہ وارنٹس میں ان پائلٹوں پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے ’دستور کی خلاف وزری‘ کی اور ’ترک جمہوریہ کے خلاف مسلح باغی گروہ کا حصہ‘ بنے۔ اس کے علاوہ اس حکم نامے میں ان پائلٹوں پر ’گولن تحریک کی ایما پر کام کرنے‘ کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔

Türkei Polizei stürmt regierungskritischen Fernsehsender
اس بغاوت کے بعد فتح اللہ گولن کی تحریک سے وابستہ افراد کے خلاف سخت کریک ڈاؤن جاری ہےتصویر: Reuters/M. Sezer

ترک میڈیا کے مطابق کونیا کے تھرڈ مین جیٹ بیس کمانڈ پر پولیس چند پائلٹوں کی تلاش کر رہے ہیں، جب کہ اس اڈے سے درجنوں پائلٹ گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ترکی میں ائر فورس کے مزید 47 فوجی افسروں کو اسی اڈے سے حراست میں لے کر گولن تحریک کے ساتھ تعلق کے شبے میں پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ مقامی میڈیا کے مطابق ان 47 میں سے 29  کو بعد میں باقاعدہ طور پر گرفتار کر لیا گیا۔

جولائی کے وسط میں ہونے والی ناکام فوجی کے بغاوت کے بعد سے اب تک 35 ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے، جب کہ اس بغاوت سے تعلق کے شبے میں اب تک 82 ہزار افراد سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔

اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں عدلیہ، فوج، تعلیم اور میڈیا کے شعبوں میں ہزاروں افراد کو ملازمتوں سے فارغ کیا جا چکا ہے۔

اس سخت کریک ڈاؤن پر یورپی یونین کی جانب سے انقرہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کریک ڈاؤن کی آڑ میں ترک صدر  ایردوآن اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنا رہے ہیں، جب کہ ملک میں اظہار رائے کی آزادی پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔