1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی ميں شامی پناہ گزينوں کی جبری ملک بدری جاری، ايمنسٹی

عاصم سليم27 دسمبر 2015

يورپی يونين کے ساتھ ايک حاليہ معاہدے کے تناظر ميں ترک حکام نے اپنے ہاں موجود شامی تارکين وطن کے خلاف کارروائياں تير کر دی ہيں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ترک حکام مہاجرين کی جبری طور پر ملک بدری کر رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/1HUFq
تصویر: Reuters/O. Orsal

سورج کی پہلی کرن استنبول کے ايک فليٹ ميں مقيم شامی پناہ گزين غادہ اور اس کے پانچ بچوں کے ليے خوف و نا اميدی کا پيغام ليے آئی۔ چھتيس سالہ غادہ اور اس کے بچے گہری نيند ميں تھے کہ پوليس نے دھاوا بول ڈالا اور ان سب کو ايک بس پر سوار کر کے کہيں روانہ کر ديا۔ انہيں يہ تک نہيں بتايا گيا کہ ان کا قصور کيا ہے۔

سات افراد کے اس خاندان کا تعلق شورش زدہ ملک شام کے شہر حلب سے ہے۔ ان کو قريب دو ہفتے قبل استنبول کے ايک حراستی مرکز بھيج ديا گيا، جہاں چوبيس گھنٹے پوليس کی نگرانی رہتی ہے اور اونچی اونچی ديواروں پر باڑيں نصب ہيں۔

’’ہمارے ساتھ ايسا رويہ اختيار کيا گيا کہ جيسے ہم مجرم ہيں،‘‘ غادہ نے بتايا۔ غادہ اب اپنے اہل خانہ کے ہمراہ استنبول کے ايک غريب محلے کی ايک عمارت کے تہ خانے ميں رہتی ہے۔ چند دوست احباب کی مدد سے يہ خاندان گرچہ حراستی مرکز سے نکلنے ميں تو کامياب رہا تاہم اس واقعے نے ايک گہری چوٹ چھوڑ دی ہے، جسے شايد وقت ہی مٹا سکے گا۔

انسانی حقوق کے ليے سرگرم گروپ ايمنسٹی انٹرنيشنل و ديگر امدادی تنظيموں کا کہنا ہے کہ ترک حکام سينکڑوں شامی پناہ گزينوں کو سڑکوں اور ديگر مقامات سے اٹھا کر حراستی مراکز بھيج رہے ہيں۔ اس پيش رفت کے نتيجے ميں بہت سے پناہ گزينوں کو ان کی مرضی کے خلاف واپس شام بھيج ديا گيا ہے۔ اسی ماہ جاری کردہ ايک رپورٹ کے مطابق، ايمنسٹی نے تقريباً پچاس ايسے خاندانوں کے ساتھ بات چيت کی، جنہيں حراست ميں ليا گیا تھا۔ رپورٹ ميں يہ بھی بتايا گيا ہے کہ حاليہ دنوں میں کم از کم ايک سو خاندانوں کو شام واپس بھيجا جا چکا ہے۔

اس وقت وہاں تقريباً 2.2 ملين شامی تارکين وطن مقیم ہيں، جن کی ديکھ بھال پر سالانہ آٹھ بلين ڈالر خرچ کيے جا رہے ہيں
اس وقت وہاں تقريباً 2.2 ملين شامی تارکين وطن مقیم ہيں، جن کی ديکھ بھال پر سالانہ آٹھ بلين ڈالر خرچ کيے جا رہے ہيںتصویر: Reuters/O. Orsal

اس کے برعکس انقرہ حکام کا کہنا ہے کہ پناہ گزينوں کو جبراً ملک بدر نہيں کيا جا رہا بلکہ کارروائی صرف جرائم پيشہ شامی مہاجرين کے خلاف کی جا رہی ہے۔ ايک سينئر اہلکار نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتايا کہ جرائم پيشہ مہاجرين کو جنوبی عثمانيہ صوبے ميں قائم ايک کيمپ بھيجا جا رہا ہے، جہاں امن و امان برقرار رکھنے کے ليے متعلقہ پناہ گزينوں کی نقل و حرکت کچھ حد تک محدود رکھی جاتی ہے۔ اس اہلکار کے مطابق منظم جرائم کے خلاف کريک ڈاؤن سے ترکی ميں موجود کُل 2.2 ملين شامی پناہ گزينوں کا ايک فيصد بھی متاثر نہيں ہو رہا۔

يہ امر اہم ہے کہ يورپ کو درپيش مہاجرين کا بحران رواں برس موسم سرما سے بگڑنا شروع ہوا ہے جبکہ ترکی نے شامی پناہ گزينوں کے ليے سن 2011 سے اپنے دروازے کھلے رکھے ہيں۔ اس وقت وہاں تقريباً 2.2 ملين شامی تارکين وطن مقیم ہيں، جن کی ديکھ بھال پر سالانہ آٹھ بلين ڈالر خرچ کيے جا رہے ہيں۔ تارکين وطن کے ليے اعلیٰ معيار کے کيمپ تيار کيے گئے ہيں جبکہ انہيں تعليم اور صحت کی بنيادی سہوليات بھی ميسر ہيں۔ تاہم زیادہ تر شامی مہاجرين کيمپوں سے باہر رہتے ہيں، جہاں انہيں ملازمت کی اجازت نہيں۔