1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی سے یونان پہنچنے کی کوشش، 70 مہاجرین ریسکیو

عاطف توقیر4 اگست 2016

جمعرات کے روز ترکی سے بحیرہء ایجیئن کے راستے یونان پہنچنے کے کوشش کے دوران 70 مہاجرین کو ریسکیو کیا گیا ہے۔ ترکی میں بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد مہاجرین کا یہ سب سے بڑا ریلا تھا۔

https://p.dw.com/p/1Jbjy
Griechenland Hitzewelle
تصویر: Getty Images/AFP/A. Tzortzinis

یونانی حکام کے مطابق ترکی میں گزشتہ ماہ فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے دوران یا بعد مہاجرین کا اتنے بڑا ریلا یونان کی جانب نہیں بڑھا تھا۔ یونانی حکام کا کہنا ہے کہ جمعرات کے روز بحیرہء ایجیئن میں سمندری لہروں سے لڑنے کی کوشش میں سرگرداں 70 تارکین وطن کو لیسبوس جزیرے کے قریب سے ریسکیو کیا گیا ہے۔

ایک برس پہلے اس راستے سے یورپی یونین میں داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد یومیہ بنیادوں پر ہزاروں میں تھی، تاہم یورپی یونین اور ترکی کے درمیان رواں برس مارچ میں طے پانے والے معاہدے کے بعد مہاجرین کے اس سیلاب میں خاصی کمی دیکھی گئی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں خانہ جنگیوں اور غربت سے تنگ آ کر یورپ کا رخ کرنے والے افراد اس معاہدے کے بعد اب اس راستے کو کم استعمال کر پا رہے ہیں۔

یونانی حکام نے بتایا کہ لیسبوس جزیرے کے قریب ایک خستہ حال کشتی سے 67 افراد کو بچایا گیا، جب کہ دیگر تین پانی سے نکالے گئے۔

یونانی کوسٹ گارڈز کے ایک اہلکار کے مطابق، ’’اس کشتی پر یہ 70 افراد سوار تھے اور یہ کشتی سمندری پانی کی نذر ہونے والی تھی۔‘‘

بدھ کے روز بھی یونانی حکام نے 38 افراد کو ریسکیو کیا تھا۔

Türkei Griechenland Abschiebung von Flüchtlingen
یونان میں اب بھی ہزاروں مہاجرین موجود ہیںتصویر: picture alliance/abaca/AA

یونانی وزیر برائے مہاجرت یِانِس موزالاس نے بدھ کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ ترکی اور یورپی یونین کے درمیان ڈیل پر عمل درآمد ہو رہا ہے، تاہم یونانی حکومت ترکی میں سیاسی تبدیلیوں کو غور سے دیکھ رہی ہے۔

ایک یونانی ٹی وی سے بات چیت کے دوران جب موزالاس سے یہ پوچھا گیا کہ اگر یورپی یونین اور ترکی کے درمیان یہ ڈیل ختم ہو گئی تو؟ موزالاس کا کہنا تھا، ’’اگر ہم یہ دیکھیں کہ یہ بہاؤ پر شروع ہو رہا ہے، تو یقین کیجیے یہ ہمارا امتحان ہو گا۔ کوئی بھی ملک اتنے زیادہ انسانوں کے لیے بندوبست نہیں کر سکتا۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ انقرہ حکومت واضح الفاظ میں کہہ چکی ہے کہ اگر اس معاہدے کے تحت ترک باشندوں کو شینگن ممالک میں بغیر ویزا انٹری نہ دی گئی، تو ترکی یہ معاہدہ ختم کر دے گا۔