1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی اور یورپی یونین کی ایک دوسرے کو دھمکیاں

30 نومبر 2016

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ ان کے ملک نے یورپی یونین میں شمولیت کی خواہش ابھی تک ترک نہیں کی تاہم ایردوآن کے بقول اگر تعطل کی شکار بات چیت کسی نتیجے تک نہیں پہنچی تو ترکی کے پاس اور بھی کئی متبادل موجود ہیں۔

https://p.dw.com/p/2TVqY
Türkei AKP mit Flaggen am Flughafen Ataturk
تصویر: Getty Images/M. Ozer

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے استنبول میں ایک بین الاقوامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے یورپی یونین کا باب ابھی تک بند نہیں کیا لیکن کسی کو یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ترکی کے پاس ہمیشہ بہت سے دیگر متبادل بھی موجود ہوتے ہیں۔‘‘ صدر ایردوآن نے یورپی پارلیمان میں ہونے والی ترکی سے مذاکرات ختم کر دینے سے متعلق اُس حالیہ رائے شماری کے نتائج پر تشویش کا اظہار بھی کیا، جس پر عمل درآمد یورپی کمیشن کے لیے لازمی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اگر یورپی یونین کا راستہ بند ہو گیا تو ہم ان متبادل راستوں پر غور کرنا یا ان کی جانچ پڑتال جاری رکھیں گے، جو ہمیں حاصل ہیں۔‘‘ تاہم اس موقع پر صدر ایردوآن نے کسی ملک کا نام نہیں لیا۔ اس ماہ کے آغاز پر ایردوآن ترکی کی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) میں شمولیت کا خیال بھی پیش کر چکے ہیں۔

Angela Merkel Recep Tayyip Erdogan Bildkombo
تصویر: picture-alliance/dpa/Kappeler/DW

واضح رہے کہ حال ہی میں یورپی پارلیمان نے بھی ترکی کے ساتھ اس کی یونین میں شمولیت کے موضوع پر مذاکرات کو سرد خانے میں ڈالنے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ جواب میں انقرہ حکومت اپنے ابتدائی رد عمل میں یورپی یونین کے ساتھ مہاجرین کے بارے میں طے پانے والے معاہدے کو منسوخ کرنے کی دھمکی دے چکی ہے۔ تب یورپی کمیشن کے سربراہ ژاں کلود ینکر نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مارچ میں ترکی کے ساتھ  طے پانے والا معاہدہ ختم ہوتا ہے تو اس کے ذمہ دار ایردوآن ہوں گے۔ ان کے بقول اگر ایسا ہوتا ہے تو ترک عوام یورپی یونین میں بغیر ویزے کے داخلے کے اپنے حق سے بھی محروم ہو جائیں گے۔

دوسری جانب جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس امر کی وکالت کی ہے کہ ترکی کے ساتھ یورپی یونین میں شمولیت کے معاملے پر مذاکرات کا سلسلہ روک دیا جائے۔ کل منگل کو یونین جماعتوں کے پارلیمانی گروپوں کے ایک اجلاس میں میرکل نے کہا کہ اُن کے خیال میں ترکی میں جولائی میں فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سے انقرہ حکومت کے انتہائی سخت اقدامات کے تناظر میں ترکی کے ساتھ مزید کسی نئے شعبے میں مذاکرات شروع نہیں کیے جانے چاہییں۔

ترکی نے یورپی یونین میں شامل ہونے کے لیے 1987ء میں باقاعدہ طور پر درخواست دی تھی ، جس پر 2005ء میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ انقرہ حکومت نے 1960ء کی دہائی میں ہی یورپی اتحاد میں شامل  ہونے کی اپنی خواہش کا اظہار کر دیا تھا۔ صدر ایردوآن کے بقول، ’’یہ یورپی یونین ہی ہے، جو 53 برسوں سے ترکی کو انتظار کروا رہی ہے۔‘‘