ترکی اور شام کی سرحد پر فائرنگ کا واقعہ
8 دسمبر 2011ترکی اور شام کی سرحد پر فائرنگ کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ شام میں حکومت مخالف تحریک شروع ہونے کے بعد سے فریقین متعدد مرتبہ ایک دوسرے پر ایسے الزامات عائد کر چکے ہیں۔ شامی باغی فورس ’فری سیریئن آرمی‘ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ترک سرحد کے قریب ان کی فورسز اور شامی دستوں کے مابین ایک جھڑپ ہوئی۔ تاہم انہوں نے ایسے دعوؤں کو مسترد کیا کہ اس کارروائی کے لیے باغی ترکی سے شام میں داخل ہوئے تھے۔ ایک اور باغی لیڈر کے بقول ان کے سپاہیوں نے سرحد پر واقع شامی فوج کی ایک چوکی کو نشانہ بنایا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق شام کی باغی فورس کے کچھ افسران ترکی میں مقیم ہیں۔
سرحد پر قائم ایک گاؤں کے رہائشی ابو فہد نے خبررساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ پوری رات شدید فائرنگ کی آوازوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ’’یہ آوازیں شام کی طرف سے آ رہی تھیں۔‘‘
ایک اور رہائشی ابو یوسف نے بتایا کہ اس نے خود دیکھا کہ فائرنگ شام کی جانب سے کی جارہی تھی۔ ’’ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شامی فوجی سرحد پار کرنے کی کسی کوشش کو ناکام بنا رہے ہوں۔‘‘
شامی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق شامی سرحدی فوج نے ترکی سے دراندازی کی ایک کوشش ناکام بنا دی۔ کوئی 35 کے قریب مسلح دہشت گرد شام میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ایجنسی نے مزید بتایا کہ جھڑپ کے دوران ان میں سے کچھ زخمی ہوئے اور سرحد پار کر کے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ایک ترک سفارت کار نے کہا کہ شامی رپورٹ حقائق سے بالکل مطابقت نہیں رکھتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انقرہ کی یہ پالیسی نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک میں اپنے فوجی روانہ کرے۔
شامی میں حکومت مخالف تحریک شروع ہونے کے ساتھ ہی ترکی اور شام کے باہمی تعلقات بگڑنا ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اس دوران ترکی نے شامی صدر بشارالاسد کو پرتشدد کارروائیاں روکنے کے حوالے کئی مرتبہ پیغامات بھی بھیجے اور بات چیت بھی کی لیکن اس کی تمام تر کوششیں بے اثر ثابت ہوئیں۔ ترکی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر شام میں اسی طرح حکومت مخالفین پر تشدد کا سلسلہ جاری رہا تو اس ملک میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔ اسی وجہ سے انقرہ حکام نے شامی سرحد کے قریب ایک بفر زون یا غیر فوجی علاقہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : ندیم گِل