1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترقیاتی امداد کے حوالے سے امریکہ اور جاپان کو تنقید کا سامنا

Hans Dembowski کا تبصرہ3 ستمبر 2008

گھانا کے دارلحکومت عکرہ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس شروع ہوئی۔ کانفرنس میں اِس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ ترقیاتی کاموں کے لئے دی جانے والی امداد کے استعمال کو کس طرح سےمؤثر بنایا جاسکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/FAcj
گھانا کے دارلحکومت عکرہتصویر: AP Photo

رَوک طرزِ موسیقی کے آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والےگلوکار Bono اور Bob Geldhof جب بھی اپنے کنسرٹس میں امیر صنعتی ممالک سے ترقی پذیر ملکوں کی امداد بڑھانے کا مطالبہ دہراتے ہیں، تو ہر مرتبہ حاضرین کی جانب سے اُنہیں زبردست داد ملتی ہے۔ حقیقت بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ امیر ترین صنعتی ملکوں کے گروپ G8 میں شامل کسی بھی ملک نے اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 0,7 حصہ ترقیاتی امداد کے طور پر دینے کا برسوں پرانا وعدہ ابھی تک پورا نہیں کیا ہے۔ دریں اثناء اِن ممالک نے یہ ہدف سن 2015 تک حاصل کرنے کا عزم ظاہرکیا ہے۔

امدادی رقم دینے سے زیادہ اہم سوال لیکن یہ ہے کہ اس رقم کا کس طرح استعمال کیا جائے گا؟ اور یہی سوال گھانا میں جاری اس کانفرنس میں بھی اٹھایا گیا ہے کہ امداد دینے اور لینے والے ممالک کس طرح اس رقم کو موثر طریقے سے کام میں لا سکتے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف رقم کی فراہمی سے مسائل حل ہوسکتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ جب تک اس رقم کے عملی استعمال کا طریقہ کار وضع نہ کیا جائے، اُس وقت تک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ ایک بات واضح ہے کہ امداد دینے والے ممالک کے درمیان آپس میں ہم آہنگی بے حد ضروری ہے۔ اب تک یہ ممالک انفرادی سطح پر اقدامات کرتے رہے ہیں، جس کا عملی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پورے براعظم افریقہ میں کئی طرح کی غیر ملکی امدادی تنظیمیں اور انجمنیں سرگرمِ عمل ہیں۔ اِن سب کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث مثلاً حفظانِ صحت کا کوئی مربوط نظام وضع نہیں کیا جا سکا ہے۔ کبھی ایک جگہ کوئی طبی مرکز قائم کر دیا تو کہیں کوئی ہسپتال بنا دیا۔ متاثرہ ممالک کی حکومتوں سے اِن تمام ترقیاتی سرگرمیوں کو مربوط کرنے کی توقع رکھنا اُن پر اُن کی بِساط سے زیادہ بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ پہلے ہی ان ممالک کو ایسی بہت سی شرائط پورا کرنا پڑتی ہیں، جو صنعتی ممالک کی جانب سے امداد دیتے وقت عاید کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متاثرہ ممالک کوئی حقیقی پالیسییاں بھی نہیں بنا پاتے۔

ترقیاتی امداد دینے کا منفی پہلو یہ ہے کہ امیر صنعتی ممالک کا اثرورسوخ میں اضافہ ہوتا ہےاور امداد لینے والے ملکوں کا انحصاربڑھ جاتا ہے۔عکرہ کانفرنس میں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ امداد لینے والے ترقی پذیر ممالک خود بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ ایک لحاظ سے تو یہ درست ہے لیکن اِس میں خطرہ پھر بھی یہ ہے کہ یہ ملک بالآخر بین الاقوامی اداروں ہی کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔ جبکہ ترقی پذیر ملکوں کی حکومتوں کا اپنے عوام کے ساتھ رشتہ سب سے اہم بات ہے۔ یہ عوام ہی ہیں جو ایک اچھی طرح سے کام کرنے والی جمہوری حکومت میں تنظیموں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنی حکومت کو کنٹرول کرتے ہیں۔