1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تبتی باشندے، ’انتخابات‘ کی تیاریوں میں مصروف

23 فروری 2011

دنیا کے مختلف حصوں میں آباد تبتی باشندے اگلے ماہ ہونے والے تبتی انتخابات کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اگرچہ ان تبتی باشندوں کی اپنی کوئی ریاست نہیں ہے لیکن وہ ایک نئی حکومت کا انتخاب بہرحال کریں گے۔

https://p.dw.com/p/R3MN
تصویر: AP

چند ماہ قبل تبتی باشندوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ تبتی ریاست کے سربراہ کے طور پر اپنی سیاسی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تبت کی تحریک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بھارت میں دھرم شالا میں ہونے والے انتخابات محض ایک علامتی کارروائی نہیں ہوں گے۔

انتخابی عمل سے متعلق ابتدائی اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ تبتی باشندے دلائی لامہ کی سیاسی طور پر اپنے فرائض سے دستبردار ہونے کی خواہش کی وجہ سے ایک دھچکے کی سی کیفیت میں ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں دلائی لامہ کے نمائندے چوئک یاپا کے مطابق شمالی امریکہ اور یورپ میں آباد تبتی باشندوں کی طرف سے ان انتخابات کی 60 فیصد تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔

Dalai Lama Besuch in Deutschland
دلائی لامہ تبتی ریاست کے سربراہ کے طور پر اپنی سیاسی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو جائیں گےتصویر: AP

چوئک یاپا اور سم ڈونگ رنپوچے، جو کہ تبت کی جلاوطن حکومت کے وزیر اعظم ہیں، ابھی حال ہی میں جرمنی بھی آئے تھے۔ یہ ایک طرح سے ان کا انتخابی دورہ تھا۔ ان کے ساتھ صحافی بھی تھے اور انہوں نے جرمنی میں آباد تبتی باشندوں کے ساتھ ملاقاتیں بھی کیں۔ جرمنی میں آباد تبتی باشندوں میں سے رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد صرف 21 ہے۔

اپنے دورہء جرمنی کے دوران تبت کی جلاوطن حکومت کے وزیر اعظم رنپوچے نے کہا تھا کہ دلائی لامہ تبتی باشندوں کے روایتی سیاسی نظام کو اب غیر فعال سمجھتے ہیں۔ تبت کی جلاوطن حکومت کے اعلیٰ ذرائع کے مطابق دلائی لاما اس جلاوطن حکومت کے انتخاب کے طریقہء کار میں تبدیلی چاہتے ہیں۔

رنپوچے کے مطابق وہ خود اور دلائی لامہ بھی اب ستر برس سے زائد کی عمر کے ہیں۔ لیکن دلائی لامہ نے تبتی تحریک میں زیادہ جمہوریت متعارف کرانے کا جو ارادہ کیا ہے، اس پر خود رنپوچے اور عام تبتی باشندے بھی کافی تشویش کا شکار ہیں۔

Deutschland Tibet Dalai Lama in Frankfurt
دلائی لامہ کے دورہ جرمنی کے موقع پر لی گئی ایک تصویرتصویر: AP

دلائی لامہ چاہتے ہیں کہ نئی تبتی حکومت کی تشکیل میں تبتی باشندوں کا عمل دخل اور بھی زیادہ ہونا چاہیے۔ سیاسی طور پر اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہونے کے دلائی لامہ کے ارادے کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ یہ بزرگ سیاسی اور مذہبی رہنما تبت کی علامت بن چکے ہیں۔ وزیر اعظم رنپوچے کے مطابق اگر دلائی لامہ نے اپنا سربراہ ریاست کا عہدہ چھوڑ دیا، جیسا کہ وہ اعلان بھی کر چکے ہیں، تو تبتی تحریک کے باقی ماندہ دنیا کے ساتھ سفارتی تعلقات یکدم بدل جائیں گے۔

رنپوچے کے بقول پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دلائی لامہ کی شخصیت کے ظاہری طور پر پس منظر میں چلے جانے سے خاص طور پر مغربی ممالک اپنے ہاں تبت کی جلاوطن حکومت کے نمائندوں کو خوش آمدید نہ کہیں۔ رنپوچے نے کہا کہ مغربی ملکوں کی حکومتوں کا یہ ممکنہ رویہ اس وجہ سے دیکھنے میں آ سکتا ہے کہ وہ شاید مستقبل میں چینی حکومت کو، تبت کی جلاوطن حکومت کی حمایت کی وجہ سے ناراض نہیں کرنا چاہیں گے۔

تبت کی جلاوطن حکومت کے وزیر اعظم اور تبتی باشندوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مذہبی طور پر تو وہ دلائی لامہ کے ارادوں کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی کہی ہوئی ہر بات پر عمل بھی کرتے ہیں، لیکن سیاسی طور پر وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ دلائی لامہ تبت کے ریاستی سربراہ بھی رہیں حالانکہ خود دلائی لامہ اب یہ ذمہ داریاں چھوڑ دینا چاہتے ہیں۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں