1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تا‍مل ٹائیگرز کے خلاف آپریشن: شہری ہلاکتوں کا پہلی بار حکومتی اعتراف

2 اگست 2011

سری لنکا کی وزارت دفاع کی ایک نئی رپورٹ میں پہلی بار اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ تامل ٹائیگرز کے خلاف کارروائی میں شہری ہلاکتیں ہوئی ہیں تاہم اس میں جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں کی کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔

https://p.dw.com/p/129Xj
تصویر: AP

یکم اگست کو جاری ہونے والی رپورٹ بعنوان ’’انسانی بنیادوں پر آپریشن، حقیقت پر مبنی تجزیہ‘‘ میں دعوٰی کیا گیا ہے کہ سرکاری فورسز نے گنجان آباد علاقوں پر توپخانے سے گولہ باری نہیں کی حالانکہ اس کا ثبوت موجود ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرکاری فورسز نے جنگ کے آخری مہینوں میں شہری ہلاکتوں سے مکمل طور پر بچنے کی پالیسی اپنا رکھی تھی تاہم اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی لڑائی میں اس سے بچنا ناممکن ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے کہا، ’’سری لنکا کی حکومت نے بالآخر یہ تسلیم کر لیا ہے کہ لڑائی کے آخری مہینوں میں اس کی فورسز کے ہاتھوں شہری ہلاکتیں ہوئی ہیں مگر اس نے ان کی کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی۔‘‘ تنظیم نے کہا کہ رپورٹ میں تامل ٹائیگرز کے ہاتھوں لوگوں کو انسانی ڈھال بنانے، اپنے علاقوں سے فرار ہونے والے شہریوں پر فائرنگ اور دیگر زیادتیوں کا تو تذکرہ ہے مگر شہری ہلاکتوں میں سری لنکا کی فوج کے کردار کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

Flüchtlingslager in Sri Lanka PANO
سری لنکا کی فوج پر تامل ٹائیگرز کے خلاف کارروائی کے دوران شہری ہلاکتوں کا الزام ہے۔تصویر: AP

اس کے علاوہ رپورٹ میں سرکاری فوجیوں کے ہاتھوں من مانے طریقے سے تامل ٹائیگرز کے قتل کے الزامات کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا گیا حالانکہ اس کی ویڈیو شہادتیں موجود ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈائریکٹر نے کہا کہ اگرچہ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ فوجی کمانڈروں نے اہداف کو دیکھنے کے لیے بنا پائلٹ ڈرون طیاروں سے کھینچی ہوئی تصاویر پر انحصار کیا مگر اسپتالوں اور دیگر شہری مراکز پر گولہ باری سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں قصداﹰ نشانہ بنایا گیا۔

Soldaten der Armee in Sri Lanka
رپورٹ میں تامل ٹائیگرز کے ہاتھوں لوگوں کو انسانی ڈھال بنانے اور دیگر زیادتیوں کا تو تذکرہ ہے مگر شہری ہلاکتوں میں سری لنکا کی فوج کے کردار کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔تصویر: picture-alliance/ dpa

انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں سری لنکا کی حکومت کی جانب سے اپنی فوج کے ہاتھوں مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات کی ناکافی معلومات ملتی ہیں۔ رپورٹ میں سن 2005 سے سن 2010 کے دوران ملک کے شمالی اور مشرقی علاقوں میں سری لنکا کی فوج کے ہاتھوں اہم جرائم کا ذکر ہے اور قتل، زنا بالجبر اور جنسی زیادتی کے الزامات میں آٹھ افراد کو سزا دی گئی ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا یہ جرائم فوجی کارروائیوں کے دوران ہوئے یا پھر یہ عام دنوں میں ہونے والے جرائم تھے۔

ہیومن رائٹس واچ نے جنگ میں دونوں فریقوں کی جانب سے جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں کی خود مختار بین الاقوامی تحقیقات کے مطالبے کا اعادہ کیا۔

بریڈ ایڈمز نے کہا کہ یہ رپورٹ سری لنکا کی حکومت کی جانب سے دنیا کو اس بات پر قائل کرنے کی ایک کمزور کوشش ہے کہ سرکاری فورسز نے تامل ٹا‌ئیگرز کے خلاف لڑائی میں جنگی جرائم کا ارتکاب نہیں کیا۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں