1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تارکین وطن کا ’اپنے گھر واپس جاؤ‘ کے نعروں سے استقبال

شمشیر حیدر20 فروری 2016

جرمنی میں پناہ کی تلاش میں آنے والے خواتین اور بچے بس میں بیٹھے رو رہے تھے۔ بس کے باہر ایک سو کے قریب مہاجرین مخالف جرمن شہری شدید نعرہ بازی کر رہے تھے۔ کیا جنگوں سے بھاگ کر جرمنی آنے والوں کو یوں خوش آمدید کہا جاتا ہے؟

https://p.dw.com/p/1Hz2J
Screenshot YouTube Aggressiver Mob bedroht Flüchtlingsbus in Clausnitz
تصویر: YouTube/Thomas Geyer

ڈرے سہمے پناہ گزینوں کی بس کو گھیرے ہوئے اور شدید نعرہ بازی کرتے ہوئے غیر ملکیوں سے نفرت کرنے والے جرمنوں کی ویڈیو جب سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچی تو اس کی حمایت اور مخالفت کرنے والوں میں بحث بھی شروع ہو گئی۔

جرمنی سے مایوس پناہ گزینوں کی رضاکارانہ وطن واپسی

جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن کی صورت حال

یہ واقعہ وفاقی جرمن ریاست سیکسنی کے شہر کلاؤزنِٹس میں پیش آیا۔ یہ شہر اسلام مخالف تنظیم پیگیڈا کا مرکز سمجھے جانے والے شہر ڈریسڈن سے صرف تیس کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔

سیکسنی کے پولیس ترجمان رافیل شولس کے مطابق یہ واقعہ جمعرات کی شب اس وقت پیش آیا جب تارکین وطن کو ایک بس کے ذریعے کلاؤزنِٹس میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس میں منتقل کیا جا رہا تھا۔ اس دوران نئے بنائے گئے اس شیلٹر ہاؤس کے خلاف احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں تقریباﹰ سو کے قریب مظاہرین نے شرکت کی۔ ان مظاہرین نے گاڑیاں کھڑی کر کے بس کا راستہ روک رکھا تھا۔

غیر ملکیوں سے نفرت کرنے والے جرمنوں کے اس گروہ نے پناہ گزینوں کی بس روک لی اور جرمن زبان میں ’ہم عوام ہیں‘ اور ’اپنے گھر واپس جاؤ‘ کے زوردار نعرے بلند کرنا شروع کر دیے۔ بس میں سوار تارکین وطن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔

اس بس پر جرمن زبان میں ’سفر سے لطف اندوز ہوں‘ درج تھا لیکن مسافروں کے لیے صورت حال پریشان کن تھی۔ پہلے ہی صدمہ زدہ تارکین وطن کے چہروں پر پریشانی اور خوف نمایاں تھا، عورتوں اور بچوں نے رونا شروع کر دیا۔ جرمن پولیس کے اہلکار بھی اس وقت وہاں موجود تھے تاہم ان کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔

اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پہنچتے ہی وائرل ہو گئی اور اس پر تنقید کی جانے لگی۔ سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو بھی پھیل گئی جس میں ایک پولیس اہلکار بس میں سوار خوفزدہ مہاجر بچے کو زبردستی بس سے نکال کر شیلٹر ہاؤس میں منتقل کرتا دکھائی دیا۔

ان دونوں ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد جرمنی میں مہاجرین کی حمایت اور مخالفت میں بحث دیکھی جا رہی ہے تاہم اکثریت نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ جرمن میڈیا میں بھی اس شرمناک واقعے کی مذمت دیکھی جا رہی ہے۔

سیکسنی کے وزیر داخلہ مارکوس اُلبش نے اس واقعے کو ’شرمناک‘ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے پولیس اہلکار کی ویڈیو پر بھی بات کرتے ہوئے کہا، ’’میں نے وہ بھی دیکھی ہے اور تصاویر اپنی زبان میں سب کچھ بتا رہی ہیں تاہم اس واقعے کی انکوائری کے بعد ہی کارروائی کی جائے گی۔‘‘

سیکسنی میں اس سے قبل بھی ایسے واقعات دیکھے جاتے رہے ہیں۔ دریں اثناء پولیس نے مہاجرین کی ایک رہائش گاہ پر آتش گیر بم پھینکنے کے الزام میں دائیں بازو کے دو نوجوان شدت پسندوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

New alliance counters xenophobia in Germany

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید