'بے نظیر کے قاتلوں تک پہنچنے میں کسی کو دلچسپی نہیں‘
27 دسمبر 2016بے نظیر بھٹو کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی 2008ء سے 2013ء تک وفاق میں حکمران رہی مگر اس عرصے میں بے نظیر کے قتل کے ذمہ داروں تک نہیں پہنچا جا سکا۔ ان کے قتل کی تفتیش اقوام متحدہ کے ایک کمیشن نے بھی کی مگر پھر بھی کسی نتیجے تک نہ پہنچا جا سکا۔
بے نظیر بھٹو کی ایک قریبی ساتھی ناہید خان کی رائے میں کوئی بھی بے نظیر کے قاتلوں کو پکڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا،’’پانچ سال پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت رہی تمام سکیورٹی ایجنسیاں اس حکومت کے ماتحت تھیں لیکن وہ بی بی کے قاتلوں تک پہنچنے کے لیے کچھ نہ کر سکے۔‘‘
ناہید خان کہتی ہیں کہ نواز شریف نے بھی حکومت میں آنے کے بعد کہا تھا کہ وہ بے نظیر کے قتل میں ملوث افراد کو پکڑوائیں گے لیکن انہوں نے بھی کچھ نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کو جہاں اس تنقید کا سامنا ہے وہیں بہت سے افراد بے نظیر کو ایک انتہاتی قابل اور پاکستان کی تاریخ کی ایک شاندار رہنما کی حیثیت سے یاد کر رہے ہیں۔
آج پاکستان میں سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ بے نظیر بھٹو ٹرینڈ کر رہا ہے۔ کئی افراد مسلم دنیا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
بے نظیر کی سب سے چھوٹی بیٹی آصفہ بھٹو زرداری نے ایک ٹوئٹ میں لکھا،’’یا للہ یا رسول بے نظیر بے قصور۔‘‘ بلاول بھٹو زرداری نے بھی ٹوئٹر پر اپنی والدہ کے ساتھ تصویر شیئر کی۔
بے نظیر کی قریبی ساتھی شیری رحمان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ نو برس قبل پاکستان نے اپنا سب سے قابل لیڈر کھو دیا تھا۔ بے نظیر بھٹو سے محبت کرنے والے پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے ان کی برسی کے موقع پر نہ صرف بے نظیر بھٹو کی تصاویرکو سوشل میڈیا پر شیئر کیا بلکہ ان کے لیے دعائیہ کلمات بھی تحریر کیے ہیں۔
خیال رہے کہ بے نظیر بھٹو سابق صدر پرویز مشرف کے دَور حکومت میں طویل جلاوطنی کے بعد 2007ء میں وطن لوٹی تھیں۔ دبئی سے کراچی پہنچنے پر ہزاروں افراد ان کے استقبال کے لئے ایئرپورٹ پہنچے۔ وہ ایئرپورٹ سے اپنی رہائش گاہ کو لوٹ رہی تھیں کہ راستے میں ان کے قافلے کو خودکش بمباروں نے نشانہ بنایا۔ اس حملے میں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ بے نظیر بھٹو محفوظ رہی تھیں۔
بے نظیر بھٹو سن 2008 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اپنے وطن لوٹی تھیں۔ اسی حوالے سے 27 دسمبر 2007ء کو انہوں نے راولپنڈی میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔ ان کی گاڑی جلسہ گاہ سے نکل رہی تھی کہ ایک خود کش دھماکہ اور فائرنگ ہوئی۔ اس حملے میں بے نظیر بھٹو ہلاک ہو گئیں۔ ان کی ہلاکت پر ملک بھر، بالخصوص صوبہ سندھ میں بد امنی پھیل گئی تھی۔