1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بےنظیر قتل کیس: مارک سیگل کا بیان جھوٹ کا پلندہ، پرویز مشرف

شکور رحیم، اسلام آباد2 اکتوبر 2015

پاکستان کی سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں استغاثہ کے اہم گواہ اور امریکی شہری مارک سیگل کے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ریکارڈ کرائے گئے ویڈیو بیان پر ملک کے قانونی حلقوں میں شدید بحث جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/1GhmW
Pakistan Benazir Bhutto
بےنظیر بھٹو کی راولپنڈی کی انتخابی ریلی میں ان کے قتل کے روز لی گئی ایک تصویرتصویر: dapd

جمعرات یکم اکتوبر کے روز بے نظیر بھٹو قتل کیس کی سماعت کرنے والی عدالت میں ایک ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرا ئے گئے اپنے بیا ن میں مارک سیگل نے کہا، ’’دو ہزار سات میں اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے ٹیلی فون کر کے کہا تھا کہ پاکستان آنے کی صورت میں بے نظیر بھٹو کی سکیورٹی اُن (مشرف) کے ساتھ بہتر تعلقات سے مشروط ہو گی۔‘‘

مارک سیگل کے مطابق اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں بے نظیر بھٹو کے استقبالیہ جلوس پر ہونے والے خود کش حملوں کے بعد سابق وزیر اعظم پریشان تھیں، جس کے بعد انہوں نے 26 اکتوبر کو انہیں (مارک سیگل کو) ایک ای میل کے ذریعے بتایا تھا کہ ان کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں اور انہیں پروٹوکول کے مطابق سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی اور اگر انہیں کچھ ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری پرویز مشرف پر ہوگی۔‘‘

دوسری جانب پرویز مشرف کے وکیل الیاس صدیقی کا کہنا ہے کہ مارک سیگل کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مارک سیگل کا بیان ناقابل قبول شہادت ہے۔ وہ پرویز مشرف کی جس دھمکی آمیز فون کال کا ذکر کر رہے ہیں، اس سے متعلق ریکارڈ کہیں بھی موجود نہیں۔ یہ محض الزامات ہیں اور الزامات سے زیادہ کچھ نہیں۔‘‘

الیاس صدیقی نے سابق چیئرمین سینیٹ اور پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق ایچ نائیک کی مارک سیگل کے ہمراہ موجودگی پر بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ گواہی کا یہ پورا عمل ہی مشکوک ہے۔

انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کی آئندہ سماعت پانچ اکتوبر کو ہونا ہے، جس میں مارک سیگل پر جرح کی تاریخ دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ جرح کے دوران ثابت کریں گے کہ مارک سیگل کا بیان جانبدارانہ اور حقائق سے عاری ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ مارک سیگل کے بیان سے پاکستان میں یہی تاثر پیدا ہوا ہے کہ پرویز مشرف بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا، ’’قانونی طور پر اس بیان کی اہمیت کا اندازہ اس وقت لگایا جائے گا جب مارک سیگل پر وکلاء صفائی اپنی جرح مکمل کریں گےکیونکہ کسی بھی گواہ کا بیان جرح کے بغیر قانونی اہمیت نہیں رکھتا۔‘‘

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کی مارک سیگل کے ہمراہ موجودگی کے بارے میں وکیل صفائی الیاس صدیقی کے اعتراض کے جواب میں اعتزاز احسن نے کہا، ’’فاروق نائیک کا وہاں موجود ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ لیکن وکیل صفائی اس بات پر یقیناﹰ اعتراض اٹھا سکتے ہیں اور یہ ان کا حق ہے۔‘‘

مارک سیگل کی جانب سے بیان ریکارڈ کرانے کے بعد بے نظیر بھٹو کی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری نے کہا کہ پرویز مشرف ان کی والدہ کے ’قاتل‘ ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں آصفہ بھٹو زرداری نے کہا، ’’پرویز مشرف نے جائے حادثہ کو دھونے کا حکم دیا۔ وہ میری والدہ کے قاتل ہیں اور عدالتیں میرے خاندان اور پارٹی کو انصاف دینے میں ناکام رہی ہیں۔‘‘

Pervez Musharraf 2013
مارک سیگل کا بیان جھوٹ کا پلندہ ہے، پرویز مشرف کا ردعملتصویر: picture-alliance/dpa

سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو ستائیس دسمبر دو ہزار سات کے روز راولپنڈی شہر میں ایک انتخابی جلسے کے بعد ایک خودکش حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان کے قتل کا مقدمہ گزشتہ سات سال سے راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اس مقدمے میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف اور اعلٰی پولیس افسران سمیت آٹھ ملزمان پر فرد جرم عائد کی جا چکی ہے جبکہ پرویز مشرف اس مقدمے میں ضمانت پر ہیں۔

اسی دوران پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو قتل کیس میں استغاثہ کے اہم گواہ اور امریکی شہری مارک سیگل کے بیان کو ’جھوٹ کا پلندہ‘ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔

جمعے کی شام جاری کیے گئے ایک بیان میں پرویز مشرف نے کہا کہ مارک سیگل اگر سچے ہیں تو انہوں نے اپنے زیرادارت شائع ہونے والی بے نظیر بھٹو کی کتاب میں اس سچائی کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ ’’اگر بے نظیر بھٹو کومجھ سے خطرہ ہوتا، تو وہ مجھ سے سکیورٹی کیوں مانگتیں؟مخالفین مارک سیگل کے بیان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اس بیان کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔‘‘

پرویز مشرف نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ان کا امریکہ میں کوئی ٹیلی فونک رابطہ نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے2007ء میں بے نظیر بھٹو کو کوئی ٹیلی فون کال کی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں