1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بی ایل اے ماما قدیر کو قتل کرانا چاہتی ہے‘

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ1 ستمبر 2015

بلوچستان پولیس اورخفیہ اداروں نے کوئٹہ سے اہم علیحدگی پسند افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان نے شدت پسندوں نے سکیورٹی فورسز کو بدنام کرنے کے لیے صحافیوں اور دیگر بلوچ رہنماؤں کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GPip
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ دہشت گردی میں ملوث کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے دوانتہائی مطلوب دہشت گردوں، شفقت علی اورمحمد ابراہیم عرف شاہ جی کو کوئٹہ کےعلاقےسریاب سے گرفتار کیا گیا۔ ان ملزمان کے قبضے سے مختلف وارداتوں میں استعمال ہونے والا اسلحہ اور حساس دستاویزات بھی برامد ہوئی ہیں۔

سرفراز بُگٹی کے مطابق، ’’کالعدم بی ایل اے سے تعلق رکھنے والے ان دہشت گردوں کی گرفتاری بہت اہم پیش رفت ہے۔ یہ ملک دشمن عناصر ایک منظم منصوبے کے تحت ملکی قومی سلامتی کے اداروں کو بدنام کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال کوئٹہ میں مقامی نیوز ایجنسی سے وابستہ صحافی ارشاد مستوئی سمیت تین صحافیوں کو اسی مقصد کے لیے قتل کیا گیا تھا تاکہ یہ الزام سکیورٹی اداروں پر لگایا جا سکے۔‘‘


صوبائی وزیرداخلہ نے بتایاکہ گرفتار ملزمان نے تفتیش دوران بہت اہم انکشافات کیے ہیں۔ 2010ء میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سیکرٹری جنرل حبیب جالب بلوچ کو بھی انہی ملزمان نے قتل کیا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا، ’’بی ایل اے نے بلوچستان میں اہم سیاسی رہنماؤں کو قتل کرنے کا منصوبہ بھی تیار کیا ہے۔ گرفتار دہشت گردوں نے انکشاف کیا ہے کہ وہ آئندہ ماہ کوئٹہ میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی رہنماء حافظ حمد اللہ سمیت بعض دیگر سیاسی رہنماؤں کو قتل کرنا چاہتے تھے، تاکہ بلوچستان میں دیگر سیاسی جماعتیں بھی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں۔‘‘

پریس کانفرنس کے دوران گرفتار دہشت گردوں کے اقبال جرم پر مبنی ویڈیو بیانات بھی میڈیا کو دکھائے گئے۔

ملزم شفقت عرف نوید کے بیان کے مطابق اس نے مبینہ طور پر بی ایل اے کے جلاوطن سربراہ حربیار مری کے کہنے پر کوئٹہ میں صحافیوں کو قتل کیا۔ اس قتل کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ پاکستانی خفیہ ادارے بلوچ سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ مبینہ طور پر بلوچ صحافیوں کو بھی قتل کر رہے ہیں تاکہ آزاد بلوچستان کے قومی مقصد کو ناکام کیا جا سکے۔

پریس کانفرنس کے دوران گرفتار دہشت گردوں کے اقبال جرم پر مبنی ویڈیو بیانات بھی میڈیا کو دکھائے گئے
پریس کانفرنس کے دوران گرفتار دہشت گردوں کے اقبال جرم پر مبنی ویڈیو بیانات بھی میڈیا کو دکھائے گئےتصویر: DW/A. Ghani Kakar

دوسرے گرفتار ملزم محمد ابراہیم عرف شاہ جی نے اپنے بیان میں کہا کہ صحافیوں کے قتل کے ساتھ ساتھ انہوں نے کوئٹہ سمیت ملک بھر میں 100 سے زائد حملے کیے: ’’ہمیں تنظیم کی جانب سے یہ بتایا گیا تھا کہ ہم ایسے افراد کو نشانہ بنائیں جس سے پاکستانی حکومت دباؤ میں آ سکے۔ ہمیں ایک فہرست بناکر دی گئی تھی جس میں اہم سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے نام درج تھے۔ اسی فہرست کے مطابق ہم اپنے اہداف پر حملے کرتے رہے ہیں۔ لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی بازیابی کے لیے بنائی گئی تنظیم کے سربراہ ماما قدیر بلوچ کو بھی بی ایل اے قتل کرنا چاہتی ہے۔ ہمیں اس حملے کا ٹاسک بھی دیا گیا تھا۔ حیربیار مری سمجھتے ہیں کہ ماما قدیر بلوچ صرف براہمداغ بُگٹی اور ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے لیے کام کرتے ہیں اسی لیے وہ ان کو راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔‘‘

بلوچستان کے ضلع تربت اور گوادر میں آج یکم ستمبر کو عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان دو جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ ایف سی کے ترجمان نے بتایا ہے کہ تربت کے علاقے بلیدہ اور گوادر میں فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں تین دہشت گرد ہلاک جبکہ 12 دیگر دہشت گردں کوبھاری اسلحے سمیت گرفتار کیا گیا ہے۔