1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بین المذاہبی مکالمت میں نشریاتی اداروں کا کردار

عاطف بلوچ4 جولائی 2008

برطانوی اسلام ٹی وی کا نیا اسلامی پروگرام Faith Off قدرے ہلکے پھلکےاندازمیں ترتیب دیا گیا ہے،جس نے عوام میں نہایت مقبولیت حاصل کی۔ جبکہ جیو ٹی وی کی پیشکش عالم آن لائن بھی اپنے منفرد انداز کی بدولت مقبول عام ہے۔

https://p.dw.com/p/EVPA
جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں مکالمت کو موثر بنانے کے لئے نشریاتی اداروں کا کردار بہت اہم ہو گیا ہے۔تصویر: DW

مذاہب اور تہذیبوں کے مابین مکالمت میں آرٹ اور ذرائع ابلاغ نے ہمیشہ ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔ مختلف ٹیلی وژن چینلز، ریڈیو چینلز اور انٹر نیٹ پر بھی اس بارے میں بہت زیادہ مواد ملتا ہے ۔

حال ہی میں ایک برطانوی اسلامی چینل نے سوالات پر مبنی ایک مذہبی پروگرام شروع کیا ہے ، جس میں ہلکے پھلکے اور دلچسپ انداز میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد ایک کوئز شو کی صورت میں، معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔

Faith Off نامی اس کوئز شو کے میزبان اور معروف برطانوی کامیڈین جیف مرزا نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو بین المذاہب مکالمت کے لئے کئی ٹیلی وژن پروگرامز ہیں لیکن یہ پروگرام انہوں نےخصوصی طور پر ترتیب دیا ہے تاکہ نوجوان طبقہ کچھ اہم معلومات سے مستفید ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ اس پروگرام میں اسلام ، یہودیت ، عسائیت ، ہندو اور سکھ مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کھیل کھیل میں کئی اہم معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں اور اس پروگرام کا ہلکا پھلکا اندازنوجوان نسل کے لئے بھی توجہ کا مرکز بن رہا ہے۔

پاکستان میں بھی میڈیا کی ترقی کے ساتھ ایسے ہی موضوعات یعنی بین المذاہب یا فرقوں کے مابین غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔انہی کوششوں میں جیو ٹیلی وژن کا ایک پروگرام عالم اون لائن بھی شامل ہے۔ جوپاکستان میں مختلف فرقوں کے مابین غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے بہت فائدہ مند ثابت رہا، اس پروگرام کے میزبان اور پیش کار ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہاگرچہ وہ اپنے اس مقصد میں بھر پور کامیاب نہیں ہوئے ہیں لیکن انہوں نے ایک پرانی بحث کو نئے انداز میں شروع کر کے ، سوچنے والوں کو نئی جہت فراہم کی ہے۔

جب ہم نے ڈاکٹر عامر سے پوچھا کہ کیا ایسے پروگرام کہیں فرقہ واریت یا انتہا پسندی کو ہوا تو نہیں دیتے تو انہوں نے کہا کہ انسان میں انتہا پسندی کی بھی خصلت ہے اور وہ اپنی زندگی میں کبھی کبھار اس خصلت کو استعمال کرتا ہے لیکن جب مذہب کا معاملہ اس سے جڑتا ہے تو یہ معاملہ حساس ہو جاتا ہے لیکن ان تمام معاملات کو بحث ،مکالمت اور گفتگو کے زریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عامر نے کہا کہ موجودہ صوتحال میں ان موضوعات پر گفتگو بہت اہم ہیں۔