1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بین الاقوامی پشتو کانگریس: پشاور میں دو روزہ امن کانفرنس

29 اپریل 2011

جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان اور افغانستان میں قیام امن کے لیے پشاور میں دو روزہ امن کانفرنس کا آغاز ہوگیا ہے۔

https://p.dw.com/p/116Se
تصویر: DW

اس کانفرنس میں یورپ، امریکہ، آسٹریلیا، جرمنی، مشرقی وسطیٰ، ایران فرانس، بیلجیم، کینیڈا، افغانستان اور کئی دیگر ممالک کے مندوبین شریک ہیں۔ صوبائی حکومت کے تعاون سے شروع ہونے والی اس کانفرنس میں 800 سے زائد ملکی اور غیر ملکی مندوبین شریک ہیں۔ کانفرنس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ اس سے دنیا بھر میں پختونوں کے بارے میں مثبت رائے قائم ہوگی۔

کانفرنس کے آرگنائزر فریدون خان نے انتظامات کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’بدامنی نے ہماری سر زمین کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے، آج ہم دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پختون عوام ایک امن پسند قوم ہیں۔ یہ نہ تو کسی کی غلامی قبول کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو غلام بنانا پسند کرتے ہیں۔‘‘

Drug addicted people in Pakistan's North west Khayber Pakhtoon khowa province's Capital Peshawar
تصویر: DW

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں آج کوئی گھر ایسا نہیں رہا، جو دہشت گردی سے متاثر نہ ہوا ہو۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی نے جہا ں ہمیں جانی نقصان پہنچایا وہیں پر ہماری معیشت اورثقافت کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ ان کے مطابق، ’’ہم چاہتے ہیں معاشرے کے دانشور، شاعر، ادیب اور دیگر افراد بدامنی کے خاتمے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔‘‘

بین الاقوامی پشتو کانگریس کے زیر اہتمام نشتر ہال پشاور میں منعقدہ اس کانفرنس کا آغاز وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا امیر حیدر خان ہوتی نے اپنے خطا ب سے کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد دنیاکو یہ بتانا ہے کہ پختون پر امن قوم ہیں اور اس کانفرنس کا نعرہ بھی یہی ہے کہ ’جنگ نفرت اور امن محبت ہے‘۔

Angriff auf US-Konsulat in Peshawar Pakistan
قبائلی علاقےاور خیبر پختونخوا مسلسل دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیںتصویر: Faridullah Khan

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جب روس نے افغانستان پر فوج کشی کی تو اس وقت پاکستان سے غلطیاں ہوئیں، جس کا پاکستان کو اس وقت احساس نہیں تھا۔ ’’ہم نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ آگ پاکستان تک بھی پہنچ سکتی ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ آج بھی کہتے ہیں کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا، اس وقت تک پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی امن قائم نہیں ہو سکتا اور قبائلی علاقوں میں کشیدگی ہو، تو اس کے اثرات سے ملک کے دوسرے حصے بھی متاثر ہوں گے۔

کانفرنس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے پاکستان،افغانستان، ایران اور بھارت کے سیاستدانوں، دانشوروں اور پالسی ساز اداروں کے ماہرین کو ایک ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا اور اس خطے سے غیر ملکی مداخلت ختم کرنا ہوگی۔ امن کے قیام کے لیے لویہ جرگہ طلب کیا جائے اورخطے کے بڑے ملک چین کو اس کے لیے معاونت کرنی ہو گی۔ کانفرنس کے دوران پشتو میں لکھی گئی کتابوں کے کئی اسٹال بھی لگائے گئے ہیں جبکہ امن کے حوالے سے مختلف پینٹنگز کی نمائش بھی کی گئی ہے۔ کانفرنس کے پہلے روز مختلف ممالک سے آنے والے اسکالروں اور ادیبوں نے اپنے مقالے پیش کیے اور اس دوران پاکستان اور افغانستان میں قیام امن کے لیے مختلف تجاویز بھی پیش کی گئیں۔

رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں