بھارت: گجرات قتلِ عام کے گیارہ مجرموں کے لیے صرف عمر قید
17 جون 2016خصوصی عدالت کے جج پی بی ڈیسائی نے گلبر گ سوسائٹی قتل عام کے نام سے مشہور اس بھیانک معاملے کو سول سوسائٹی کی تاریخ کا ’تاریک دن‘ قرار دیا تاہم مجرموں کو سز ائے موت کی سزا دینے کے حوالے سے استغاثہ کی استدعا کو قبول نہیں کیا۔ فاضل جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر ریاست اپنے خصوصی اختیار ات کا استعمال نہیں کرتی ہے تو گیارہ مجرموں کی سزا ان کی موت تک جاری رہے گی ۔
عدالت نے اقدام قتل میں ایک مجرم کو دس سال اورشدت پسند ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد کے لیڈر اتل وید سمیت باقی بارہ مجرموں کو سات سات سال قید کی سزا سنائی۔
یہ واقعہ فروری 2002کو پیش آیا تھا ، جب چارسو سے زائد پرتشدد ہجوم نے مسلمانوں کی رہائش والے گلبرک سوسائٹی کو آگ لگادی تھی اور کانگریس کے سابق ممبر پارلیمان احسان جعفری سمیت 69 افراد کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔ بعد میں وہاں سے 39لوگوں کی انتہائی مسخ شدہ لاشیں ملی تھیں جبکہ 30لوگوں کی لاشیں بھی نہیں مل پائی اور بعد میں عدالت نے انہیں مردہ تسلیم کرلیا تھا۔ اس واقعہ کے وقت موجودہ وزیراعظم نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلی تھے۔
مرحوم احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری نے عدالت کے فیصلے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ’یہ انصاف نہیں ہے، وہ مجرموں کو کم سزا دئے جانے پر مایوس ہیں ۔‘ ذکیہ جعفری کا کہنا ہے ان کے شوہر نے نریندر مودی کو فون کرکے مدد کی درخواست کی تھی لیکن مودی نے مدد فراہم کرنے سے انکار کردیا تھا۔
گلبرگ سوسائٹی متاثرین کی لڑائی لڑنے والی معروف سماجی کارکن تیستا سیتل واڑ نے فیصلے کا خیر مقدم تو کیا ، لیکن کہا کہ یہ کمزور فیصلہ ہے اور وہ کم سزا دیے جانے پر مایوس ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جنہیں عمر قید نہیں ہوئی ہے ، ان کے خلاف بڑی عدالت میں دوبارہ اپیل کریں گی۔ ادھر بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں میں اپوزیشن پارٹی کانگریس کے رہنما ملک ارجن کھڑگے نے مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر چھوٹے بڑے معاملے میں مداخلت کرتی ہے اور اسی باعث اس مقدمے کی بڑی مچھلیوں کو پکڑا نہیں گیا۔
گلبرگ سوسائٹی قتل عام کا یہ واقعہ گجرات کے گودھرا ریلوے اسٹیشن پر سابرمتی ایکسپریس مسافر ٹرین کے ایک ڈبے کو جلائے جانے کے کے ایک روز بعد پیش آیا تھا۔ شدت پسند ہندو تنظیموں کا الزام ہے کہ سابرمتی ٹرین میں58 ہندووں کو مبینہ طورپر جلا کر ہلاک کردیا گیا جو اجودھیا سے بھگوان رام کے درشن کے بعد واپس لوٹ رہے تھے۔ اس واقعہ کے بعد ریاست بھر میں فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں تقریباَ دو ہزار لوگ مارے گئے تھے۔