1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کا پانی بطور ہتھیار استعمال کرنے کا اشارہ

جاوید اختر، نئی دہلی23 ستمبر 2016

جنوبی ایشیا کے دو جوہری طاقت رکھنے والے پڑوسیوں کے مابین جاری کشیدگی کے درمیان بھارت نے اپنے روایتی حریف پاکستان کے خلاف پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی بالواسطہ دھمکی دے دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1K7Ej
Indien Pakistan Grenze Grenzübergang Wagah Punjab Fahnenzeremonie
تصویر: BEHROUZ MEHRI/AFP/Getty Images

جموں و کشمیر کے اڑی میں بھارتی فوجی چھاؤنی پر حالیہ حملے میں انیس جوانوں کی ہلاکت کے بعد نریندر مودی حکومت پر پاکستان کے خلاف کارروائی کے لیے بڑھتے دباؤ کے درمیان بھارتی وزارت خارجہ نے دونوں ملکوں کے مابین چھپن سال پرانے سندھ آبی معاہدہ کو منسوخ کرنے پر غور کرنے کا اشارہ دیا ہے۔

پاکستان کے خلاف اقدامات کے ضمن میں جب بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ سے پوچھا گیا کہ کیا دونوں ملکوں کے مابین موجودہ کشیدگی کے مدنظر بھارت سندھ آبی معاہدہ پر نظرثانی کرے گا، تو سوروپ کا کہنا تھا، ’’ایسے کسی معاہدے کے برقرار رہنے کے لیے فریقین کے درمیان باہمی تعاون اور اعتماد ضروری ہے اور معاہدے میں کہا گیا ہے کہ یہ ’خیر سگالی‘ پر مبنی ہے۔‘‘

جب ان سے اصرار کرکے پوچھا گیا کہ کیا بھارت اس معاہدے کو ختم کردے گا تو انہوں نے واضح جواب دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ ’سفارت کاری میں سب کچھ بیان نہیں کیا جاتا۔ اس معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے دونوں ملکوں میں اختلافات ہیں اور جہاں تک اس معاہدے کا معاملہ ہے تو بھارت نے اپنے تمام متبادل کھلے رکھے ہیں‘۔

خیال رہے کہ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خان نے کراچی میں 19 ستمبر سن 1960 کو عالمی بینک کی ثالثی میں سندھ آبی معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ جس کی رو سے چھ دریاؤں کو دونوں ملکوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

کشمیر سے بہنے والے تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب پر پاکستان کو خصوصی اختیار اور پنجاب سے بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج پر بھارت کو اختیار دیا گیا تھا۔ بھارت اس معاہدے کی رو سے مغربی دریاؤں کا 3.6 ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال کرسکتا ہے لیکن اس نے آج تک اس کے لیے کوئی اسٹوریج سہولیات نہیں بنائی ہے۔

دوسری طرف پاکستان بڑی حد تک سندھ کے پانی پر منحصر کرتا ہے۔ اس کے تقریباً65 فیصد حصے کو اسی دریا سے پانی ملتا ہے۔ اگر بھارت اپنے یہاں سے پاکستان کی طرف جانے والی دریاؤں کا پانی روک دیتا ہے تو پاکستان میں پانی کا زبردست بحران پیدا ہوجائے گا۔ تاہم آبی ماہرین کہتے ہیں کہ اس سے خود بھارت کو بھی نقصان ہوگا اور جموں و کشمیر نیز بھارتی پنجاب کے علاقے سیلاب کی زد میں آجائیں گے۔

بھارت کے سابق وزیر خارجہ اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما یشونت سنہا نے مشورہ دیا ہے کہ بھارت کو سندھ آبی معاہدہ فوراً منسوخ کردینا چاہیے تاکہ پاکستان پر دباؤ ڈالا جاسکے۔ اس طرح کا مشورہ کوئی نیا مشورہ نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی جب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوئے تو پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا آئیڈیا کچھ رہنماوں نے دیا تھا۔

ان کا خیال ہے کہ یہ کسی جانی نقصان کے بغیر پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لیے سب سے آسان اور مؤثر متبادل ہے۔ تاہم اس مشورے کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا کیوں کہ اسٹریٹیجک امور کے ماہرین اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ اس طرح کے اقدامات سے بھارت مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے اور پاکستان کو سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو روکنے کے لیے مجبور کرسکے گا۔

یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سن 1965اورسن 1971 کی جنگیں نیز سن 1999 کی کرگل عسکری مہم جوئی کے باوجود دونوں ملک سندھ آبی معاہدہ کو نہایت خوش اسلوبی سے برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں اور اس معاہدے کو بین سرحد ی دریاؤں کے پانی کے استعمال کے حوالے سے تعاون کے لیے عالمی رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

بھارت کے معروف تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انیالسس میں اسٹریٹیجک امور کے ماہر اتم سنہا کا خیال ہے کہ پانی روکے بغیر یا ضابطوں کی خلاف ورزی کیے بغیر بھی پاکستان پر دباؤ دیا جاسکتا ہے۔ ان کا خیال ہے، ’’اس معاہدے کے مطابق اگر بھارت مغربی دریاؤں کا پانی استعمال کرنے لگے، جو اس نے آج تک نہیں کیا ہے، تب بھی پاکستان دباؤ میں آجائے گا۔ لیکن اس کے منفی اثرات بھی ہوسکتے ہیں کیوں کہ دیگر پڑوسیوں کے ساتھ ہمارے آبی معاہدے بھی ہیں اور اگر ہم سندھ آبی معاہدے کا احترام نہیں کریں گے تو ایک غلط اشارہ جائے گا اور اگر چین نے بھی اسی طرح کا کوئی قدم اٹھایا تو ہمارے پاس اس کے خلاف کوئی اخلاقی جواز نہیں ہو گا۔‘‘

Indien Kaschmir Indischer Soldat
بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا ہےتصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں