1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت- چین، تجارتی تعلقات میں بہتری، سیاسی تعلقات میں جمود

16 دسمبر 2010

چینی وزیراعظم وین جیا باؤ کے دورہ بھارت کے موقع پر عالمی طاقت بننے کے خواہش مند اور ایشیا کے ان دو اہم ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں تو بہتری کے امکانات پیدا ہوئے ہیں، تاہم سیاسی تعلقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔

https://p.dw.com/p/Qd5L
تصویر: AP

دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو مزید فروغ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن سرحد پار سے مبینہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کو روکنے کے لئے پاکستان پر دباؤ ڈالنے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت جیسے امور پر نئی دہلی، بیجنگ کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔

بھارت کے دورے پر آئے چین کے وزیرا عظم وین جیاباؤ اور بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے درمیان وفد کی سطح پر ملاقات کے بعد دونوں ملکوں نے باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے کے لئے چھ اہم معاہدوں پر دستخط کیے۔ دونوں ملکوں نے باہمی تجارت کو 2015 تک موجودہ 49 بلین ڈالر سالانہ سے بڑھاکر 100 بلین ڈالر کرنے کا ہدف بھی مقرر کیا۔

Wen Jiabao in Indien
بھارت اور چین ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ پارٹنر ہیں: چینی وزیراعظم وین جیا باؤتصویر: picture alliance / dpa

دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے بعد جاری مشترکہ بیان میں دونو ں ملکوں نے دہشتگردی کا مل کر مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، تاہم بھارت پاکستان کی طرف سے جاری مبینہ دہشت گردی کو رکوانے کے لئے اسلام آباد پر دباؤ ڈالنے کے لئے چین کو آمادہ کرنے میں ناکام رہا۔ اسی طرح تقریباﹰ نصف صدی پرانے تبتی پناہ گزینوں کے معاملے، شمال مشرقی بھارت کے صوبے اروناچل پردیش میں چین کی مبینہ دراندازی، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جاری تعمیراتی سرگرمیوں میں چین کی شمولیت یا جموں وکشیمر کے لوگوں کو اسٹیپل ویزا جاری کرنے جیسے متنازع امور پر بھی بھارت چین سے کوئی ٹھوس یقین دہانی حاصل نہیں کرسکا۔ تاہم دونوں ملک ہر سال وزرائے خارجہ کی سطح پر میٹنگ کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔ دونوں ممالک وزرائے اعظم کے درمیان ہاٹ لائن قائم کرنے پر بھی رضامند ہوگئے ہیں۔ بھارتی خارجہ سیکریٹری نروپما راؤ نے بعد میں بتایا، "ہاٹ لائن تین چار روز پہلے ہی کام کرنے لگے ہیں۔"

چینی وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان تعلقات وقت کی کسوٹی پرکھرے اترے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور چین ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ پارٹنر ہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت اور چین ہمیشہ کے لئے دوست ہیں اور دونوں ملکوں کے 2.5 ارب عوام کے تعاون سے براعظم ایشیا کو نئی بلندیوں تک لے جایا جاسکتاہے جس کا پوری دنیا پر اثر پڑے گا۔

دونوں ملکوں نے بینکنگ، گرین ٹیکنالوجی، میڈیا ایکسچینج، آبی وسائل اور دریائے ستلج سے متعلق چھ معاہدوں پر دستخط کئے۔ بھارتی مرکزی بینک ریزروبینک آف انڈیا اور چین کی بینکنگ اتھارٹی کے درمیان معاہدے سے دونوں ملکوں کے خصوصاﹰ تاجروں کو کافی سہولت ہوجائے گی۔ دریائے ستلج کے متعلق معاہدے سے دونوں ملکوں کے درمیان الزام تراشی کا سلسلہ بند ہونے میں مدد ملےگی۔ خیال رہے کہ بھارت چین پر یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ اس نے اپنے علاقے میں دریائے ستلج پر جو ڈیم بنائے ہیں اس کی وجہ سے بھارتی صوبہ ہماچل پردیش سیلاب سے دوچار ہوجاتا ہے۔

Indien China Besuch Wen Jiabao Dezember 2010
وین جیا باؤ بدھ 15 دسمبر کو نئی دہلی پہنچنےتصویر: AP

جوہری طاقت رکھنے والے دونوں پڑوسیوں نے دنیا کو نیوکلیائی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی اپیل کرتے ہوئے نیوکلیائی ہتھیاروں پر مکمل پابندی لگانے کی حمایت کی۔ سرحد تنازع پر مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے، "دونوں ممالک سرحد کے سوال سمیت تمام حل طلب تنازعات کو پرامن طور پر حل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔"

سفارتی تعلقات کے ساٹھ برس مکمل ہونے پر دونوں ملکوں نے 2011 کو "ہند۔ چین تبادلہ کا سال" منانے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران دونوں ملکوں کے درمیان سول سوسائٹی کی تنظیموں، نوجوانوں، میڈیا، دانشوروں اور فن کاروں کے درمیان بڑے پیمانے پر تبادلے ہوں گے۔ چین مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے 500نوجوانوں کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دے گا۔ چین نے بھارتی اسکولوں کے نصاب میں اگلے سال سے چینی زبان کو غیرملکی زبان کے طور پر شامل کرنے کے فیصلے کی ستائش کی اور ہندوستانی ٹیچروں کو چینی زبان کی تربیت دینے کی پیش کش کی۔

خیال رہے کہ بھارت اور چین کے باہمی تعلقات حالیہ مہینوں میں تلخی کا شکار رہے ہیں۔ نئی دہلی نے چین کی طرف سے جموں و کشمیر کے باشندوں کومعمول کے مطابق ویزا دینے کے بجائے الگ کاغذ پر ویزہ جاری کرنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔ چین نے یہ کہتے ہوئے علیحدہ کاغذ پر ویزا دینا شروع کیا کہ وہ کشمیر کو متنازع خطہ سمجھتا ہے۔ وہ اروناچل پردیش کے لوگوں کو بھی علیحدہ کاغذ پر ویزا جاری کرتا ہے۔ چند ماہ قبل اس نے کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے کمانڈرکو ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ جواب میں بھارت نے بھی چین سے اپنے دفاعی ایکسچینج پروگرام معطل کر دیے تھے۔

یاد رہے کہ دونوں ممالک1962ء میں جنگ کر چکے ہیں اور پچھلے 30 برس سے سرحدی تنازعے پر بات چیت کر رہے ہیں جس میں ابھی تک کو ئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت: افسراعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں