1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بھارت نے سونے کے انڈے دینے والی مرغی مار دی‘

بینش جاوید، روئٹرز
4 اکتوبر 2017

بھارت میں حکومت کی جانب سے ذبح خانوں اور مویشیوں کی تجارت کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے اس سال جون میں  چمڑے کے جوتوں کی برآمدات میں تیرہ فیصد کمی ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2lD8e
Marokko Chouara-Gerberei in Fes
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Hayman

روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق  اب دنیا کے بڑے برانڈز چمڑے کی مصنوعات کے لیے چین، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور پاکستان کا رخ کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق بھارت میں چمڑے کےجوتوں اور دیگر مصنوعات کی برآمدات میں کمی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے پریشانی بن سکتی ہے، جو سن 2020 تک ملکی چمڑے کی صنعت کی آمدنی کو ستائس ارب  ڈالر تک پہنچا کر اس صنعت میں لاکھوں نوکریاں پیدا کرنا چاہتے تھے۔

بھارت میں سن 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے وفاقی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد گائے کو مقدس سمجھنے اور سخت گیر ہندو نظریات رکھنے والے انتہا پسندوں کی جانب سے گوشت اور چمڑے کے کاروبار کی مخالفت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ بھارت میں زیادہ تر مسلمان ہی ان پیشوں سے وابستہ ہیں۔ مسلمان بھارت کی کل آبادی کا چودہ فیصد ہیں۔

چمڑے کی مصنوعات کے کاروبار میں کمی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آگرہ میں جوتوں کی ایک فیکڑی کے مالک نذیر احمد نے کا کہنا تھا،’’ ہم نے سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو مار دیا ہے۔‘‘

بھارت میں گائیوں کی خفیہ تجارت

روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق بھارت کا شمار سب سے زیادہ چمڑےکے جوتے اور مصنوعات فروخت کرنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ اس شعبے میں بھارت کی کل آمدنی مالی سال 2017۔2016 میں5.7 ارب ڈالر ہے جو کہ اس سے گزشتہ اقتصادی سال کی نسبت 3.5 فیصد کم ہے۔ اس سال مارچ میں ایک سخت گیر قوم پرست ہندو سیاست دان یوگی ادیاناتھ نے بھارتی ریاست اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد لائسنس نہ رکھنے والی قصائی کی دکانوں کو بند کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ اکثر ذبح خانوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ چھوٹی دکانوں کے لیے لائسنس حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ 

اسی سال مئی میں وفاقی حکومت نے ’جانوروں پر ظلم کو روکنے‘ کا جواز بنا کر ذبح کرنے کے مقصد سے جانوروں کی تجارت پر پابندی عائد کر دی تھی اور مویشیوں کو صرف زرعی مقاصد اور دودھ کی پیداوار کے لیے ان کی خرید و فروخت کی اجازت دی تھی۔ تاہم بھارت کی اعلیٰ عدالت نے ان حکومتی اقدامات کے خلاف فیصلہ دے دیا تھا۔  اس کے باوجود مسلمان تاجروں کو کوئی ریلیف نہیں ملا۔ ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مویشیوں سے لدے ٹرکوں پر حملوں کے کئی واقعات بھی پیش آئے۔ نذیر احمد کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے مویشیوں کی تجارت کا حکم تو دے دیا ہے لیکن کوئی بھی تاجر ان ہندو انتہا پسندوں کے حملوں کا نشانہ نہیں بننا چاہتا جو اب بھی ملک بھر میں کافی سرگرم ہیں۔

گائے نے بھارتی معاشرے کو تقسیم کر دیا

بھارت کے جنوبی شہر چنئی میں جوتوں کے ایک بڑے تاجر اور ’فیڈیریشن آف انڈین ایکسپورٹ آرگنائزیشنز‘ کے سابق صدر رفیق احمد نے روئٹرز کو بتایا،’’اب صورتحال یہ ہے کہ ایچ اینڈ ایم، زارا اور کلارکس جیسے برانڈز نے بھارت سے کاروبار کم کر دیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ ان بین الاقوامی برانڈز کے ساتھ ہمارا کاروبار اس لیے کم ہوا ہے کیوں کہ ہمارے گاہکوں کو یقین نہیں ہے کہ ہم ان کی ضروریات کو پورا کر سکیں گے اور اب وہ ایشیا میں دیگر سپلائرز کے پاس چلے گئے ہیں۔‘‘

چمڑے کی ایک فیکٹری کے مالک نے روئٹرز کو بتایا،’’ میرا کاروبار بالکل ختم ہو گیا ہے کیوں کہ میرے پاس خام مال ہی نہیں ہے۔ اب جوتے بنانے والی بڑی کمپنیاں جانوروں کی کھالوں کو درآمد کر رہی ہیں۔‘‘ جوتے بنانے والی چھ کمپنیوں کے مالکان اور چمڑے کی فیکٹریوں کے دو مالکان نے روئٹرز کو بتایا کہ گزشتہ چھ ماہ میں اس شعبے سےمنسلک تین لاکھ افراد کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔