1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں ہر آٹھ منٹ بعد ایک بچہ لاپتہ ہو جاتا ہے

8 اپریل 2016

نیشنل کرائمز بیورو نے بتایا ہے کہ بھارت میں لاپتہ ہو جانے والے بچوں کی تلاش میں مہاشٹر نے سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے۔ ان لاپتہ ہو جانے والے بچوں میں چالیس فیصد کی تلاش کا عمل ناکامی سے دوچار ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IRms
Indien Kinderarbeit
تصویر: picture alliance/dpa/H. Tyagi

بھارت میں آج کل ملک گیر سطح پر ایک مہم جاری ہے کہ لاپتہ ہو جانے والے بچوں کو تلاش کر کے، اُنہیں اُن کے خاندان تک پہنچایا جائے۔ اِس ضمن میں مغربی ریاست مہاراشٹر نے سب سے زیادہ لاپتہ بچوں کو تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

سماجی ماہرین کے مطابق اِس ریاست کی کامیابیوں سے امید کا چراغ روشن ہوا ہے کہ اگر وفاقی اور ریاستی حکومتوں کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھرپور انداز میں سمجھ بوجھ اور ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے تفتیشی عمل آگے بڑھائیں تو لاپتہ ہو جانے والے بچوں کی تلاش میں کامیابی کا تناسب اور زیادہ ہو سکتا ہے۔

ریاست مہاراشٹر کے چیف منسٹر دیوندر فدناویس نے رواں ہفتے کے دوران بتایا تھا کہ مسکراہٹ اور مسکان کے قومی آپریشن (اسمائل) کے تحت بارہ ہزار سے زائد بچوں کا سراغ کامیابی سے لگایا گیا ہے۔ اسمائل یا مسکراہٹ نام سے شروع ہونے والے قومی مہم کا آغاز رواں برس پہلی جنوری سے ہوا تھا اور اِس کے تحت لاپتہ یا اغوا ہو جانے والے بچوں کو ڈھونڈ کر اُن کے خاندانوں تک پہنچانا مقصود ہے۔ فدناویس نے ریاستی اسمبلی میں بتایا کہ اُن کی ریاست نے اِس قومی مہم میں انتہائی بہتر نتائج حاصل کیے ہیں اور خاندانوں سے اُن کے بچھڑے بچے ملا کر مسکراہٹ کے پھول کھلائے ہیں۔

Bildergalerie Kinderarbeit in Indien
مہاراشٹر میں اور مسکان کے قومی آپریشن (اسمائل) کے تحت بارہ ہزار سے زائد بچوں کا سراغ کامیابی سے لگایا گیا ہےتصویر: DW/J. Singh

بھارت کے نینشل کرائمز بیور کے مطابق ہر آٹھویں منٹ پر ایک بچہ لاپتہ ہو جاتا ہے یا پھر اُس کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔ لاپتہ یا اغوا ہونے والے بچوں کی سب سے بڑی منزل مہاراشٹر ہی ہے اور اِسی ریاست میں بچوں کی اسمگلنگ کا دھندہ کرنے والے سرگرم ہیں۔ جرائم کے اعداد و شمار کے بھارتی ادارے کے مطابق لاپتہ ہو جانے والے بچوں میں سے چالیس فیصد کا سراغ نہیں ملتا ہے۔ مہاراشٹر کی حکومت کی کوششوں کی پذیرائی ملک گیر سطح پر کی جا رہی ہے۔

بھارت میں جہاں بھیڑ میں بچے اپنے والدین سے بچھڑ جاتے ہیں وہیں اغواکار بھی بچوں کو اغوا کرنے کی وارداتیں کرتے ہیں اور بعد میں یہ بچے بیگار کیمپوں تک پہنچا دیے جاتے ہیں۔ بڑی عمر کے بچے گھریلو مسائل سے نجات کی خاطر بھی گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔

مہارشٹر میں قانون کے حلقوں کی کارروائیوں سے اغوا کی وارداتوں میں انتہائی زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ ایسی وارداتوں کی سطح باون سے نو فیصد کی سطح پر آ گئی ہے۔ بھارت میں بچوں کی بہبود کے لیے مصروف نوبل انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی کی ایک اپیل پر سن 2013 سے سپریم کورٹ نے پولیس اسٹیشنوں کو پابند کر رکھا ہے کہ وہ بچوں کے لاپتہ ہونے کی رپورٹس درج کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی مت کریں۔