1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں معلق پارلیمان کا امکان اور صدر کا کردار

افتخارگیلانی، نئی دہلی15 مئی 2009

بھارت میں عام انتخابات کے نتائج سامنے آنے ہی والے ہیں۔ تاہم اس سے قبل وہاں سیاسی سرگرمیاں پورے شباب پرہیں۔ یہ قیاس آرائیاں بھی زوروں پر ہیں کہ موجودہ سیاسی حالات میں صدر پرتبھا پاٹل کا کردار کیا ہوگا۔

https://p.dw.com/p/HrI3
صدر پرتبھا پاٹلتصویر: UNI

یہ بات تقریبا واضح ہوچکی ہے کہ43 رکنی لوک سبھا یا ایوان زیریں کے لئے ہوئے عام انتخابات میں کسی بھی سیاسی پارٹی یا اتحاد کو واضح اکثریت نہیں ملنے والی۔ اس لئے سب کی توجہ راشٹرپتی بھون یا قصر صدارت کی طرف مبذول ہے۔ یہ صدر پرتبھا پاٹل کے لئے ایک بڑا امتحان بھی ہوگا کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہیں اورنئی حکومت بنانے کی دعوت کسے دیتی ہیں۔

ہمسایہ ملک پاکستان کے برعکس جہاں قومی اسمبلی اپنا لیڈر منتخب کرتی ہے، بھارت میں صدر کو وزیر اعظم مقرر کرنے کا اختیار ہے اوروہ وزیر اعظم کو پارلیمان میں ایک مقررہ مدت کے اندر اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لئے کہتا ہے۔

Sicherheit in Indien Gandhi heute
بھارتی پارلیمان کے صحن میں مہاتما گاندھی کا مجسمہتصویر: AP

خیال رہے کہ بھارتی آئین میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ معلق پارلیمان کی صورت میں صدر کس کو وزیر اعظم منتخب کرے۔ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں کی روایت کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ صدر حکومت سازی کی دعوت دینے سے پہلے پارٹیوں سے ان کی حمایت کرنے والوں کا تحریری ثبوت مانگیں گی۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ پرتبھا پاٹل سب سے بڑی پارٹی یا اتحاد کے لیڈر کو ہی حکومت بنانے کے لئے مدعو کریں بلکہ تمام پارٹیوں کے لیڈروں سے اس سلسلے میں بات کرسکتی ہیں۔ اس کے بعد حمایت کا خط مانگ سکتی ہیں اور جس پارٹی کو سب سے زیادہ ارکان پارلیمان کی حمایت حاصل ہوگی اس کے لیڈر کو بات چیت کے لئے بلاسکتی ہیں۔

حالانکہ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ صدر سب سے زیادہ ارکان پارلیمان کی حمایت پانے والے لیڈر کو ہی وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لینے کے لئے بلائیں۔ صدر اس سے پہلے یہ یقینی بنانا چاہیں گی کہ اس لیڈر کے پاس ٹھوس حکومت بنانے کے لائق تعداد ہے یا نہیں۔ سیاسی تجزیہ کار ارملیش نے اس پیچیدہ صورت حال کے حوالے سے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حالات میں سب کچھ صدر کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے۔

ماضی میں اس کی چند مثالیں

1989 میں کانگریس سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی اور صدر آر وینکٹ رمن نے اس کے رہنما راجیو گاندھی کو حکومت سازی کی دعوت دی لیکن راجیو گاندھی نے حکومت بنانے سے انکار کردیا اور وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی حکومت بنی۔

1991میں صدر شنکر دیال شرما نے سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھرنے والی بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپائی سے وزیر اعظم کا حلف لیا۔ تاہم وہ پارلیمان میں اپنی اکثریت ثابت نہیں کرسکے اور 13دنوں میں ہی ان کی حکومت گرگئی۔

1998میں صدر آر کے نارائنن نے سب سے بڑی پارٹی کے طورپر سامنے آنے والی بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپائی سے ان کی حمایت کرنے والی دوسری پارٹیوں کا خط طلب کیا تھا۔اس کے بعد ہی واجپائی کو حکومت بنانے کی دعوت ملی۔

2004میں صدر عبدالکلام نے کانگریس کو سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھرنے کے بعد دیگر پارٹیو ں کی طرف سے اسے حاصل حمایت کا خط طلب کیا جس کے بعد ہی ڈاکٹر من موہن سنگھ کو وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لینے کی دعوت دی۔

Premierminister Manmohan Singh
وزیر اعظم من موہن سنگھتصویر: Fotoagentur UNI

دریں اثنا ہفتے کو وہاں زبردست سیاسی سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ اسی روز سہ پہر ایک بجے تک تمام 543 حلقوں میں ہوئے انتخابات کے نتائج آنے کی امید ہے اور الیکشن کمیشن شام کو ان نتائج کے علاوہ آندھرا پردیش، اڑیسہ اور سکم میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا باضابطہ اعلان کرے گا۔ اسی دوران مرکزی کابینہ کی میٹنگ ہوگی جس میں لوک سبھا کو تحلیل کرنے کی قرارداد منظور کی جائے گا اور وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اپنا استعفی اور منظور کردہ قرارداد لے کر صدارتی محل جائیں گے۔ لیکن صدر پرتبھا پاٹل انہیں متبادل منتخب ہونے تک اپنے عہدے پربرقرار رہنے کےلئے کہیں گی۔ موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے نئی حکومت بننے میں تین سے سات دن لگ سکتے ہیں۔

اس دوران لوک سبھا سکریٹریٹ نے نئے ارکان پارلیمان کے لئے خصوصی انتظامات کرلئے ہیں۔ ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں سے ان کو لانے اور ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں ٹھہرانے نیز ان کی دن رات خاطر داری کے انتظامات بھی کئے گئے ہیں۔ پارلیمان کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے ان کے لئے آئینی نکات اور پارلیمانی ضابطوں سے انہیں آگاہ کرانے کے لئے خصوصی ورکشاپس اور کلاسوں کابھی انتظام کیا گیا ہے جہاں آئینی ماہرین اور سینئر ارکان پارلیمان ان کی رہنمائی کریں گے۔