بھارت میں مردم شمای کا آغاز
1 اپریل 2010اس مرتبہ مردم شماری ماضی کے مقابلے میں مختلف انداز میں کی جا رہی ہے۔ تعلیم، معاشی صورت حال، زبان، ذات اور مذہب کےعلاوہ خصوصی طور پر موبائل فون ، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت اور پینے کے صاف پانی کے معیار سے متعلق سوالات بھی ان تفصیلات میں شامل کئے گئے ہیں، جو عام شہریوں سے اُن کے بارے میں پوچھی جائیں گی۔ ساتھ ہی عام شہریوں کے فنگر پرنٹس بھی لئے جائیں گے اور تصاویر بھی کھینچی جائیں گی۔
بھارتی صدر پرتیبھا پاٹیل نے اپنا اندراج کرا کے اس مردم شماری کا باقاعدہ افتتاح کیا۔اس حوالے سے وزیر داخلہ چدم برم کا کہنا ہے کہ 2011 ء کی مردم شماری ایک بہت بڑا کام ہے اور اس دوران لوگوں کی شناخت، اور ہر بھارتی شہری کو شناختی کارڈ جاری کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک بھارت میں ہر دس سال کے بعد مردم شماری ہوتی ہے۔ چین جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، وہاں بھی ہر دس سال بعد ہی مردم شماری ہوتی ہے۔ بھارت کی دو تہائی آبادی ناقابل رسائی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔
یہ مردم شماری کاریں بنانے والوں سے لے کر ٹوتھ پیسٹ بنانے والوں تک کے لئے بھارت میں آبادی کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے جبکہ حکومتی ادارے اور اہلکار بھی اسی بنیاد پر لوگوں کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ 1872ء میں وہاں پہلی مردم شماری ہوئی تھی۔ موجودہ مردم شماری کے نتیجے میں بلدیاتی اور قومی انتخابات کے لئے حلقوں کے تعین میں بھی مدد ملے گی۔ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر عوامی بہبود کے منصوبے شروع کرنے اور صحت اور روزگار سے متعلق لوگوں کے مسائل حل کرنے میں بھی مدد ملے گی جبکہ بیرونی سرمایہ کار اداروں کے لئے بھی بھارت میں سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی آسان ہو جا ئے گی۔
ادیتیا بیرالا گروپ کے چیف اکانومسٹ اجیت رانادی کا کہنا ہے کہ بھارت جیسے بڑے ملک میں آبادی سے متعلق ہر قسم کی معلومات مفید ہوتی ہیں۔ حکومت پہلی بار 35 ارب روپے کی لاگت سے ایک نیشنل پاپولیشن رجسٹر بھی بنائے گی جس میں 15 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کی تصاویر اور فنگر پرنٹس بھی ہوں گی۔
ان معلومات کی بنیاد پرشہریوں کو بینکوں، فلاحی مالی ادائیگیوں اور ٹیکس وغیرہ کے لئے استعمال ہونے والے سمارٹ کارڈز اور یو آئی ڈی نمبر دینے میں آسانی ہوگی۔ مردم شماری کا عمل فروری 2011 میں مکمل ہوگا جس میں ان لاکھوں بے گھر لوگوں کے اعداد و شمار بھی ہوں گے جو ریلوے پلیٹ فارموں پر، پلوں کے نیچے یا پارکوں میں زندگی گزارتے ہیں۔
رپورٹ : بخت زمان
ادارت : مقبول ملک