بھارت میں لاکھوں سرکاری ملازمین ہڑتال پر
2 ستمبر 2016بھارت میں آج ہزاروں کی تعداد میں بینک، سرکاری دفاتر اور فیکٹریاں بند ہیں۔ تاہم پبلک ٹرانسپورٹ، بجلی اور پانی جیسی سہولیات فراہم کرنے والے محکمے بھارت کے بڑے شہروں اور قصبوں میں کام کرتے رہیں گے۔ اس ہڑتال کی کال’ ٹین ٹریڈ یونین ‘ نے دی تھی۔ بھارت کی مرکزی ٹریڈ یونینز میں سے ایک ’ دی سینٹر آف انڈین ٹریڈ یونین ‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ آج ہونے والی اس ہڑتال میں ایک سو پچاس سے ایک سو اسی ملین تک کارکنان نے حصہ لیا ہے جن کا تعلق بینکنگ، کان کنی اور ٹیلی کام کے شعبوں سے ہے۔
سی آئی ٹی یو کے جنرل سیکریٹری تپن سین نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات کرتے ہوئےکہا کہ یہ یونینز سرمایہ کاری اور مزدوروں کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ کم سے کم اجرت میں اضافہ کیا جائے۔ تپن سین نے مزید کہا ،’’ہم لیبر قوانین میں تبدیلیوں اور ان حالیہ حکومتی فیصلوں کی مخالفت کرتے ہیں جن کے تحت انشورنس اور دفاع جیسے شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے قوانین کو نرم کیا گیا ہے۔ تپن سین کا کہنا تھا کہ ہڑتال کی کال کامیاب رہی ہے۔ پولیس نے کئی مقامات پر مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی لیکن کارکنان احتجاجی مظاہرے میں بڑے پیمانے پر شامل ہو رہے ہیں۔
بھارت میں ٹریڈ یونینز ان حکومتی منصوبوں کی بھی مخالف ہیں جن کے تحت ’لاس میکنگ ‘سرکاری کمپنیاں بھی بند کر دی جائیں گی۔ ان کمپنیوں میں بڑی تعداد میں کارکنان کام کرتے ہیں۔ منگل کے روز ٹریڈ یونینز نے ہڑتال کی کال واپس لینے کی حکومتی اپیل کو مسترد کر دیا تھا۔ تاہم ایک بڑی یونین،’’ بھارت مزدور سنگھ ‘‘ جو برسر اقتدار سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے منسلک ہے، نے آج کی ہڑتال میں حصہ نہیں لیا۔