1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں ایک نیاسیاسی محاذ

افتخار گیلانی، نئی دہلی12 مارچ 2009

بھارت میں عام انتخابات سے قبل بنتے بگڑتے سیاسی اتحاد کے درمیان آج ایک نئے اتحاد کے قیام کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/HAe3
بھارتی کمیونسٹ پارٹی کے ایک انتخابی جلسے کا منظرتصویر: AP

بائیں بازو کی جماعتوں اور دیگر علاقائی پارٹیوں پر مشتمل اس تیسرے محاذ نے خود کو دوبڑی سیاسی جماعتوں کانگریس پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا متبادل قرار دیا۔

اس نئے محاذ میں فی الحال بھارتی کمیونسٹ پارٹی، مارکسی کمیونسٹ پارٹی، جنتا دل سیکولر، تلنگانہ راشٹریہ سمیتی، تیلگو دیسم پارٹی، اے آئی اے، ڈی ایم کے، فارورڈ بلاک، آرایس پی اورہریانہ جن ہت کانگریس شامل ہیں۔ محاذ کے لیڈروں نے کہا کہ بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں حکمراں بہوجن سماج پارٹی بھی نئے محاذ میں شامل ہونے پررضامند ہوگئی ہے جب کہ اڑیسہ میں حکمراں بیجوجنتا دل بھی ان کے ساتھ ہاتھ ملا لے گا۔ بیجوجنتا دل نے پچھلے دنوں بی جے پی کے ساتھ گیارہ سالہ پرانا رشتہ توڑ دیا اورکانگریس کے قریب جانے میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا ہے۔

Anhänger der Bharatiya Janata Partei im indischen Teil Kaschmirs 2
بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک انتخابی ریلیتصویر: picture-alliance / dpa

مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما پرکاش کرات نے جنوبی ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور کے قریب ٹمکورمیں ایک بڑے جلسہ عام کے دوران تیسرے محاذ کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے اسے کانگریس اور بی جے پی کا متبادل قراردیا۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار میں آنے پر تیسرا محاذ اقتصادی اصلاحات، بھارت امریکہ نیوکلیائی معاہدہ نیز امریکہ اوراسرائیل کے ساتھ بھارت کی بڑھتی ہوئی قربت جیسے امور پرموجودہ سرکاری پالیسیوں پرنظر ثانی کرے گا۔ انہوں نے کہا :’’ ہم تمام لوگ اس بات کو یقینی بنانے میں تعاون کریں گے کہ ملک اور عوام کو ایک نیا متبادل ملے۔ ایک نئی حکومت ملے۔ جو سیکولر ہوگی۔ لیکن سیکولر کا مطلب کانگریس کی حکومت نہیں ہے اور ہم تمام اتحادی اس حقیقت کو یقینی بنائیں گے۔‘‘

چھوٹی بڑی علاقائی دس سیاسی جماعتوں پر مشتمل اس نئے محاذ کے قیام سے کانگریس اوربھارتیہ جنتا پارٹی دونوں کی نیند حرام ہوگئی ہے۔ گوکہ چند دنوں پہلے تک تیسرے محاذ کو کوئی خاص توجہ نہیں دے رہا تھا لیکن اب یہ ایک بڑا چیلنج محسوس ہونے لگا ہے۔ کانگریس پارٹی بھی اب بی جے پی کی قیادت والے قومی جمہوری محاذ یعنی این ڈی اے سے زیادہ تیسرے محاذ سے خطرہ محسوس کررہی ہے کیوں کہ تمام بڑی ریاستوں میں اب کانگریس کاسیدھا مقابلہ تیسرے محاذ سے ہی ہوگا۔ لیکن کانگریس دل کوبہلانے کے لئے اب بھی یہ کہہ رہی ہے کہ اگر تیسرا محاذ بہت زیادہ سیٹیں حاصل کربھی لیتا ہے تب بھی نئی حکومت کے قیام کے لئے اسے یا تو کانگریس کا ساتھ دینا ہوگا یا تعاون لینا ہوگا۔

Minderheiten in Indien
کانگریس پارٹی کے حامی انتخابی نعرے لگاتے ہوئےتصویر: AP

نئے محاذ نے اگلے وزیراعظم کے لئے اپنے امیدوار کے نام کا اعلان نہیں کیا اور کہا کہ اس کا فیصلہ عام انتخابات کے نتائج کے بعد کیا جائے گا تاہم جنتا دل سیکولر کے سربراہ اور سابق وزیراعظم دیوے گوڑا کو فی الحال تیسرے محاذ کی قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

کانگریس اور بی جے پی نے نئے اتحاد کو ایک بے اصول اتحاد قراردیتے ہوئے کہا کہ اس کے پاس نہ تو کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی پروگرام اور یہ محاذ زیادہ دنوں تک نہیں چل پائے گا۔ بی جے پی کے ترجمان پرکاش جاویڈکرنے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے تیسرے محاذ کو ایک نیا ڈرامہ قرار دیا۔ کانگریس پارٹی نے کہا کہ نئے اتحاد سے اسے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جب وزیر اعظم بننے کا معاملہ آئے گا تب یہ محاذ بکھر کر رہ جائے گا اور کوئی یو پی اے میں شامل ہوگا تو کوئی این ڈی اے میں۔ پرکاش جاویڈکرنے بھی اسی طرح کے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے نتائج کے بعد تیسرا محاذ ہوا میں تحلیل ہوجائے گا۔

تاہم تیسرے محاذ کے لیڈروں نے دعوی کیا کہ اس مرتبہ حالات 1996 کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہیں جب مرکز میں کانگریس کی مدد سے تیسرے محاذ کی حکومت بنی تھی۔ بھارتی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اے بی بردھن نے کہا کہ میڈیا نئے اتحاد کو تیسرے محاذ کا نام دے رہا ہے لیکن دراصل یہی پہلا محاذ ہے کیوں کہ اس وقت کانگریس دوسرے نمبر پر ہے اور بی جے پی اس کے بعد تیسرے نمبر پر۔