بھارت : غذائی قلت سے ہونے والی ہلاکتیں
16 اکتوبر 2016غم سے نڈھال سیتا کا سرجھکائے زمین کی جانب دیکھ رہی ہے۔ سوال پوچھنے پر اسے خود پر قابو پانے میں کچھ وقت اور وہ پھر یوں گویا ہوئی، ’’میرا بچہ ساگر دوسرے بچوں کی طرح صحت مند پیدا ہوا تھا۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے اسے اسی برس نگہداشت کے ایک مرکز میں داخل کرانا پڑا تھا۔ اس کا وزن تھوڑا سا بڑھا۔ جب وہ واپس گھر آیا تو اس کا وزن پانچ کلو تھا۔ اسے سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا۔ پانچ دن بعد وہ انتقال کر گیا۔‘‘
ساگر کے انتقال کو دو ہفتے سے زائد ہو چکے ہیں اور وہ زندگی کی صرف دو بہاریں ہی دیکھ سکا تھا۔ ساگر ضلع پالگھر کے ان ڈھائی سو بچوں میں شامل ہے، جو رواں برس غذائی قلت کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ علاقہ بھارتی اقتصادی مرکز ممبئی سے تین گھنٹوں کی مسافت پر واقع ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ضلع پالگھر میں کم خوراکی کی وجہ سے ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد ڈھائی سو تک پہنچ چکی ہے۔ بعض مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے بچوں کی اصل تعداد تو اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
آشا ایک سماجی کارکن ہیں اور وہ ایک اچھی ملازمت چھوڑ کر سیتا جیسے لوگوں کی مدد کر رہی ہیں۔ انہوں نے ننھے ساگر کی کئی ہفتوں تک دیکھ بھال کی۔ چوبیس سالہ آشا کہتی ہیں کہ خوارک کی قلت جیسے معاملات کو حکومت نظر انداز کر رہی ہے،’’ میرا کام ہے کہ میں ایسے واقعات کی تفصیلات اکھٹی کروں اور جب حکومت یہ دعوی کرے کہ گاؤں میں غذائی قلت نہیں ہے تو میں اسے غلط ثابت کر سکوں۔‘‘
ایک اور نومولود دپیش دلیپ خوارک کی کمی کا اگلا شکار ہو سکتا ہے۔ یہ ابھی دس ماہ کا ہے اور اس کا وزن صرف تین کلو ہے۔ اس کے چہرے پر بھورے دھبے نمودار ہونا شروع ہو گئے۔ یہ دھبے جسم میں وٹامن کی کمی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر دالرام کہتے ہیں کہ تیس فیصد بچے خوارک کی کمی کے ساتھ ہی پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ان کے والدین کو بھی مناسب غذا دستیاب نہیں ہوتی۔
زمینی حقائق اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ بھارتی حکومت اس جانب توجہ دینے سے کتراتی ہے اور چشم پوشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کی مثال یہ کہ اس سے متعلقہ محکمے نے غذائی قلت کے موضوع پر آخری مرتبہ 2012ء میں رپورٹ مرتب کی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ1970ء کی دہائی سے موازنہ کیا جائے تو دیہی علاقوں میں بسنے والے آٹھ سو ملین بھارتی شہری خوارک کی کمی کا شکار ہیں۔