بھارت برآمد کیے جانے والے افغانستان کے پھل گلنے سٹرنے لگے
17 اگست 2017یہ مسئلہ ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان کو اپنی معیشیت کی تعمیر نو کے لیے کن مشکلات کا سامنا ہے۔ افغانستان میں زراعت کے شعبے سے وابستہ افراد کو جو سالانہ 360 ملین ڈالر کی برآمدات کرتے ہیں، برسہا برس سے پہاڑوں اور دشوار گزار راستوں والے اس ملک سے اپنی مصنوعات باہر بھجوانے کے چیلنج کا سامنا رہا ہے۔ سامان کی ترسیل کے لیے ہوائی جہازوں کی پروازیں ان تاجروں کے لیے امید کی کرن ثابت ہوئی ہیں۔
لیکن پروازوں کا یہ نظام موثر ثابت نہیں ہوا۔ بھارت کے لیے قندھار سے چند ہی پروازیں جاتی یں جس کے باعث کچھ تاجروں کو بے پناہ مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ قندھار فروٹ منڈی کے سربراہ حاجی سعادالدین نے روئٹرز کو بتایا ،’’ہم نے چالیس ٹن پھل ڈبوں میں بند کیا تھا جس میں زیادہ تر انگور اور خربوزے تھے۔ لیکن کئی ہفتوں سے بھارت کے لیے یہاں سے پرواز روانہ نہیں ہوئی اور ہمیں اس پھل کو آدھی قیمت پر مقامی منڈی میں فروخت کرنا پڑا۔‘‘
افغان صدر اشرف غنی نے اس ہفتے حکم دیا تھا کہ مقامی انتظامیہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر پرواز میں اسّی سے سو ٹن پھل لے جایا جائے گا۔ کابل میں چیمبر آف کامرس کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ وہ آریانہ ایئر لائن کے علاوہ ایک اور افغان ایئر لائن کے ساتھ معاہدہ طے کریں۔
قندھار چیمبر آف کامرس کے سربراہ حاجی نصر اللہ ظہیر نے روئٹرز کو بتایا،’’ اس وقت قندھار میں پھلوں کا موسم ہے لیکن پروازوں کی کمی کے باعث پھل خراب ہو گئے ہیں۔‘‘
بھارت اور کابل کے حکام نے کوشش کی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ہوائی جہازوں کے ذریعے تجارت کو بڑھایا جائے کیوں کہ پاکستان اکثر افغانستان کے ساتھ زمینی راستوں پر بندش عائد کر دیتا ہے۔ قندھار میں پھل فروشوں کو یہ بھی شکوہ ہے کہ شہر میں پھلوں کو اسٹور کرنے کے لیے مناسب سردخانہ موجود نہیں ہے۔
آریانہ ایئر لائن کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حج پروازوں کی وجہ سے وہ دیگر پروازیں نہیں اڑا پا رہے۔ مزید یہ کہ اُسے ایک ’سب کانٹریکٹر‘ نے کارگو جہاز مہیا نہیں کیا جس کی وجہ سے یہ مسئلہ ہوا۔ اطلاعات کے مطابق افغان حکومت ان تاجروں کو معاونت فراہم کرے گی جنہیں نقصان پہنچا ہے تاہم تاجروں کا کہنا ہے کہ کئی افراد نے قرضہ لے کر پھلوں کا کاروبار شروع کیا تھا اور اب ان کا سرمایہ ڈوب گیا ہے۔