بھارت اور خلیجی ممالک کے مذاکرات، تیل کے بدلے خوراک
11 مارچ 2016بھارتی وزیر تیل دھرمیندر پردھان کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ خیال ابھی نیا ہے لیکن نئی دہلی حکومت اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات سے ابتدائی بات چیت کر چکی ہے۔ بھارت کے اس اقدام کا مقصد اپنے تیل کے اسٹریٹجک ذخائر کو تقویت فراہم کرنا اور تیل کی درآمدات میں اضافہ کرنا ہے۔
دھرمیندر پردھان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور ابوظہبی کے کراؤن پرنس شیخ محمد بن زید النہیان اس موضوع پر دو مرتبہ گفتگو کر چکے ہیں، ’’ان ملاقاتوں میں مختلف ماڈلز پر گفتگو ہو چکی ہے۔‘‘
بھارت اپنی تیل کی ضروریات کا اسّی فیصد حصہ درآمد کرتا ہے اور اس کا بڑا حصہ مشرق وسطیٰ کے ممالک فراہم کرتے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی سپلائی میں اضافہ ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک اپنی فروخت میں اضافے کے لیے کوشاں ہیں۔ دوسری جانب بھارت بھی چین کے بعد دنیا میں چاول اور گندم پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور یہ دونوں اجناس اس نے اسٹاک بھی کر رکھی ہوتی ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے ممالک اپنی ضرورت کی خوراک بڑی حد تک بیرونی ممالک سے درآمد کرتے ہیں کیوں کہ خود ان ملکوں میں زرخیز زمین نہ ہونے کے برابر ہے اور ان کو اپنے ہاں پانی کی بھی کمی کا سامنا ہے۔ انٹرنیشنل سینٹر فار ایگری کلچر ریسرچ ان ڈرائی ایریاز کے ایک تجزیہ کار کا تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آئندہ بیس برسوں میں خوراک درآمد کرنے والے ملکوں کی لاگت دو گنا ہو جائے گی اور اس کی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں ہوں گی۔
بھارت کی سرکاری فوڈ کارپوریشن کے اعداد و شمار کے مطابق یکم فروری تک ان کے پاس اسٹاک میں سولہ ملین ٹن سے بھی زائد چاول تھے جبکہ ان کا ہدف سات اعشاریہ چھ ملین ٹن چاول اسٹاک کرنا تھا۔ اسی طرح اسٹاک کی گئی گندم بیس ملین ٹن سے زائد تھی جبکہ حکومتی ہدف تیرہ اعشاریہ آٹھ ملین ٹن گندم اسٹاک کرنا تھا۔
بھارتی وزیر تیل کا کہنا تھا، ’’وہ ہم سے خوراک خرید سکتے ہیں۔ اسے وہ بھارت میں یا پھر اپنے ملکوں میں اسٹاک کر کے رکھ سکتے ہیں جبکہ ہم ان سے تیل خرید کر اپنے اسٹریٹیجک ذخائر میں رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح کا کوئی بھی معاہدہ بھارتی کسانوں کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو گا کیوں کہ ان کو ایک نئی منڈی دستیاب ہو جائے گی۔‘‘