1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت اور آسیان کے درمیان آزاد تجارت کا معاہدہ

14 اگست 2009

بھارت اور آسیان ممالک کے بلاک نے آزاد تجارت کے معاہدے پر دستخط کر دئے ہیں۔ اس معاہدے کے لئے چھ سال تک مذاکرات کئے گئے۔

https://p.dw.com/p/JBKk
بھارت اور آسیان ممالک کے بلاک نے آزاد تجارت کے معاہدے پر دستخط کر دئے ہیںتصویر: AP

اس معاہدے سے بھارت اورآسیان ممالک کے درمیان ہونے والی تجارتی سرگرمیوں پر سے درآمدی نرخوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ اس معاہدے کا اطلاق الکیٹرونک، کیمیکل، مشینری اور ٹیکسٹائل مصنوعات پر ہو گا تاہم اس معاہدے میں سوفٹ وئیر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پروڈکٹس شامل نہیں کی گئی ہیں۔ آزادنہ تجارتی معاہدہ اگلے برس کی پہلی تاریخ سے موثر ہو جائے گا۔

اس معاہدے کے تحت اگلے تین برسوں میں بھارت اور آسیان ممالک کے درمیان تجارتی ٹیرف کو رفتہ رفتہ کم کرتے ہوئے صفر پر لایا جائے گا۔ اس معاہدے پر بھارت کے وزیرمعاشیات نے دستخط کر دئیے ہیں۔ آسیان بلاک میں شامل ممالک برونائی، کمپوڈیا، لاوس، ملائیشیا، میانمار، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویت نام کے وزراء معاشیات نے بھی اس معاہدے پر دستخط کر دئیے ہیں۔

بھارتی وزیر برائے صنعت و تجارت آنند شرما نے اس موقع پر صحافیوں کو بتایا:’’ یہ بھارت کا علاقائی کمیونٹی سے آزاد تجارت کا معاہدہ ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس میں مزید آگے بڑھا جائے گا اور رفتہ رفتہ اس مضبوط شراکت داری میں تبدیل کیا جائے گا۔‘‘

اس معاہدے میں کچھ مصنوعات کا انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔ یہ وہ پروڈکٹس ہیں جن پر اس معاہدے کا اثر دیگر مصنوعات کے بہ نسبت آہستگی سے ہوگا۔

بھارتی ریاستوں کیرالہ اور کرناٹک کی جانب سے مقامی زراعت کو اس معاہدے کے براہ راست اثرات کے حوالے سے تحفظات کے پیش نظر اس معاہدے میں یہ طے کیا گیا ہے کہ ربر، پام آئل، کافی اور مچھلی وغیرہ پر تجارتی نرخ اگلے دس سال کے عرصے میں ختم کئے جائیں گے۔

بھارتی وزیر صنعت تجارت کا کہنا تھا کہ اس معاہدے میں ریاستوں کے تحفظات کا خیال رکھا گیا ہے۔

’’اب یہ معاہدہ عوام کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے ریاستوں کے تحفظات پر مکمل طور پر توجہ دی ہے اور انہیں ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

آسیان بلاک، امریکہ یورپی یونین اور چین کے بعد بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اطراف میں ہونے والی تجارت کا حجم گزشتہ برس 47 بلین ڈالر رہا۔

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : گوہر نذیر