بھارت امریکا دفاعی اتحاد کی مضبوطی
8 جون 2016وائٹ ہاؤس میں اپنے مہمان نریندر مودی کے ساتھ گرمجوشی کا اظہار کرتے ہوئے اوباما نے کہا کہ دنیا کی دو سب سے بڑی جمہوری طاقتوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون قدرتی عمل ہے۔ امریکا کےدورے پر گئے ہوئے بھارتی وزیر اعظم اور امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا،’’امریکا بھارت دفاعی تعلقات استحکام کا لنگر ثابت ہو سکتے ہیں۔‘‘ دونوں رہنماؤں نے فوجی رسد اور دہشت گردوں سے متعلق معلومات کی اسکریننگ سے متعلق معاہدوں کو حتمی شکل دینے کا اعلان بھی کیا۔ وائٹ ہاؤس میں مودی اور اوباما کی ملاقات کے دوران جوہری عدم پھیلاؤ، دفاع اور توانائی سمیت کئی دیگر معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت حاصل کرنے میں بھرپور تعاون کا وعدہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ بھارت رواں سال کے آخر تک پیرس میں ہونے والے تحفظ ماحول کے معاہدے کو باضابطہ طور اپنا ئے گا۔
ماہرین کے مطابق بھارت اور امریکا کے مابین سائبرسکیورٹی تعاون امریکی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی حفاظت کے لیے ضروری ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران بھارت امریکا تعلقات پر سرد جنگ کی دشمنی اور بھارت کے متنازعہ جوہری ترقی کے ناخوشگوار اثرات رہے ہیں۔ 2005 ء میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری میں کمی اُس وقت آئی، جب سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش نے بھارت کے ساتھ جوہری تعاون پر تین دہائیوں سے لگی پابندی میں عارضی تعطل کا عندیہ دیا تھا۔
اس سلسلے کو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے باراک اوباما نے دنیا کی جوہری طاقتوں پر زور دیا تھا کہ بھارت کو حساس جوہری مواد کی تجارت کرنے والے گروپ میں دوبارہ داخل ہونے دیا جائے۔
نریندر مودی کے ساتھ مذاکرات کے بعد اوباما نے اپنے بیان میں کہا،’’ ہم نے سول نیوکلیئر انرجی کے شعبے میں ترقی کے بارے میں بات چیت کی ہے اور ہم نے بھارت کے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا حصہ بننے کے ضمن میں اپنی حمایت کا اظہار کر دیا ہے۔‘‘
امریکی جوہری توانائی کمپنی ویسٹنگ ہاؤس کو انڈیا میں چھ ایٹمی بجلی گھر بنانے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے جس پر اوباما اور نریندر مودی دونوں نے خوشی کا اظہار کیا۔
بش انتظامیہ کے دور حکومت میں ہونے والے جوہری معاہدے کے بعد یہ پہلی امریکی کمپنی ہے، جسے انڈیا میں پاور ہاؤس لگانے کی اجازت ملی ہے۔ دونوں ملکوں کے حکام کا کہنا ہے کہ بھارت اورامریکا دونوں میں یہ روز گار کی ہزاروں آ سامیاں پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
نئی دہلی اور واشنگٹن حکام کی طرف سے جوہری اور دفاعی تعلقات کے اس نئے باب کے آغاز کے اعلان کو بھارت کے علاقائی حریف ملک چین میں تشویشناک سمجھا جا سکتا ہے۔ بیجنگ بھارت کو اپنا ممکنہ علاقائی حریف سمجھتے ہوئے نئی دہلی اور واشنگٹن کی اس قربت کو اپنی طاقت پر ممکنہ کنٹرول کے طور پر دیکھ سکتا ہے۔