1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی پارلیمان میں خواتین کا کوٹہ ،جوڑتوڑ جاری

8 مارچ 2010

بھارتی پارلیمان میں خواتین کے لئے ایک تہائی نشستیں مختص کرنے سے متعلق مجوزہ بل اب منگل کو ایوان بالا میں رائے شماری کے لئے پیش کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/MNOM
کانگریس کی صدر سونیا گاندھیتصویر: UNI

یہ بل پیرکوراجیہ سبھا میں پیش کیا جانا تھا مگر ایوان بالا میں بد نظمی کی وجہ سے اس عمل کو موخر کر دیا گیا۔ حکمران جماعت کانگریس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی کی خواہش تھی کہ یہ بل خواتین کےعالمی دن کے موقع پر یعنی آٹھ مارچ کو ہی ایوان میں منظور کر لیا جائے۔ تاہم ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور اب یہ بل ایک دن کی تاخیر سے منگل کو ایوان بالا میں پیش کیا جائے گا۔

بھارتی پارلیمان میں خواتین کو حاصل نمائندگی میں اضافے کے لئے یہ مسودہ قانون اپنی مختلف حالتوں میں گزشتہ تیرہ سالوں سے متنازعہ بنا ہوا ہے۔ اس بل کی منظوری کے لئے موجودہ قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے جس کے لئے بھارتی ایوان بالا اور ایوان زیریں میں اس کی دو تہائی اکثریت سے منظوری لازمی ہو گی۔

دریں اثنا بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے ایک آل پارٹی میٹنگ کی کال بھی دے دی ہے تاکہ اس مجوزہ بل کی منظوری کے لئے کوئی مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے۔ دوسری طرف کانگریس پارٹی کے ایک سینئر رہنما پرنب مکھر جی اور احمد پٹیل اس بل کو منظور کروانے کے لئے پارٹی کے اتحادی سیاستدانوں سے بالمشافہ ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔

حکمران کانگریس پارٹی کے ساتھ ساتھ بھارتی جنتا پارٹی اور بائیں بازو کی دیگر چار جماعتیں اس بل کی حمایت کر رہی ہیں جبکہ کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی نے کہا ہے کہ اس بل کی منظوری بھارتی خواتین کے لئے ایک تحفہ ہو گی۔

اس بل کی منظوری کے لئے پیر کے دن ہوئے ایوان بالا اور ایوان زیریں کے مشترکہ اجلاس کو بد نظمی کی وجہ سے چار مرتبہ روکنا پڑ گیا تھا۔ آخر کار وزیر قانون ویرپا موئلی نے مقامی وقت کے مطابق دو بجے اس بل کو راجیہ سبھا میں ووٹنگ کے لئے پیش کر ہی دیا۔ تاہم اجلاس کی کارروائی ایک مرتبہ پھر اس وقت روکنا پڑ گئی جب سماج وادی پارٹی کے ارکان اور اس بل کے مخالف دیگر ممبران نے اس قانونی مسودے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔

Indien Frau vor Parlament in New Delhi Flash-Galerie
مخالفین کا کہنا ہے کہ اس بل میں اقلتیوں اور پسماندہ طبقات کا خیال نہیں رکھا گیاتصویر: AP

بھارت میں کئی چھوٹی سیاسی پارٹیاں اس بل کی شدید مخالفت کر رہی ہیں۔ بھارتی سیاست کے چند بڑے نام ملائم سنگھ یادو اور لالو پرساد یادو اس بل کی مخالفت کرنے والوں میں سب سے نمایاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مسودہ قانون اقلیتی خواتین کے حقوق کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا۔ ملائم سنگھ یادو کا کہنا ہے کہ اس بل میں مسلمان اور دلت خواتین کو بھی برابری کی نمائندگی ملنی چاہئے۔

راشٹریا جنتا دل کے رہنما لالو پرساد یادو نے کہا: ’’ہم پارلیمان میں خواتین کے لئے نشستیں مختص کرنے کی مخالفت نہیں کر رہے۔ بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ اقلیتوں اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کو بھی اس قانون کے ذریعے آگے آنے کا موقع ملے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا: ’’ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ خواتین کے لئے مختص کئے گئے اس کوٹے میں مزید ایک کوٹا رکھا جائے۔‘‘

دریں اثناء بھارتی مسلمانوں کے نمائندہ ایک گروپ آل انڈیا ملی کونسل نے بھی اقلیتی خواتین کے لئے مخصوص کوٹہ طے کرنے پر زور دیا ہے۔ اس کونسل کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ بل اپنی موجودہ شکل میں ہی پاس ہو جاتا ہے تو یہ اقلیتوں اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والی بھارتی خواتین کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: مقبول ملک