1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی نائٹ کلب کی مسلم خاتون سکیورٹی گارڈ

بینش جاوید، روئٹرز
14 جولائی 2017

مہرالنساء شوکت علی بھارت کے ایک نائٹ کلب میں سکیورٹی گارڈ ہیں۔ اس کی طاقت ور جسامت اور رعب و دبدبے والی شخصیت کے باعث کلب میں موجود لڑکیاں خود کو محفوظ محسوس کرتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2gWtI
Indien weibliche Türsteherinnen in Neu Delhi
تصویر: Reuters/A. Abidi

نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق مہرالنساء گزشتہ دس سالوں سے بطور باؤنسر یا سکیورٹی گارڈ کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔ گزشتہ تین برس سے وہ ہر روز رات کو ایک نائٹ کلب میں دس گھنٹے بطور گارڈ اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتی ہے۔

مہرالنساء اب بار میں صلح صفائی کرانے، خوفزدہ لڑکیوں کو تحفظ فراہم کرنے اور منشیات کی غیر قانونی استعمال سے پردہ اٹھانے کی ماہر بن چکی ہے۔ سوشل نامی نائٹ کلب کے مالک ریاض عملانی کا کہنا ہے،’’ ہم نے عورتوں کو اس لیے نوکری دی ہے تاکہ ہمارے نائٹ کلب میں عورتیں محفوظ محسوس کریں۔‘‘ ریاض عملانی کا کہنا ہے کہ مہرالنساء  کلب میں شراب نوشی کے باعث بے تحاشہ لڑائیوں اور جھگڑوں کو ختم کروا چکی ہے۔

Indien weibliche Türsteherinnen in Neu Delhi
مہرالنساء اپنے گھر والوں کے ہمراہتصویر: Reuters/A. Abidi

مہرالنساء نے روئٹرز کو بتایا،’’ میرے بھائی نے مجھ سے کئی مرتبہ پوچھا کہ تم کیسا کام کرتی ہو۔ لیکن مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، میرے والدین کو مجھ پر بھروسہ ہے۔ اور مجھے معلوم ہے کہ میں کوئی غلط کام نہیں کر رہی۔‘‘

تیس سالہ مہر انساء بالی وڈ کی نامور اداکارہ پری یانکا چوپڑا، پریتی زنتا اور ودیا بالن کی سکیورٹی ٹیم میں بھی کام کر چکی ہے۔ مہر النساء مسلمان لڑکیوں کے بارے میں قائم عام تاثر کو توڑ چکی ہے۔ انہوں نے نئی دہلی سے 200 کلومیٹر دور شاہرنپور میں ایک مسلم گھرانے میں پرورش پائی اور یہ بھارت کی فوج یا پولیس کا حصہ بننا چاہتی تھی لیکن اس کے والد کو یہ قبول نہ تھا۔

Indien weibliche Türsteherinnen in Neu Delhi
مہرالنساء اپنے گھر میں کام کرتے ہوئےتصویر: Reuters/A. Abidi

اپنی ماں کی مدد سے انہوں نے پرائمری تک تعلیم مکمل کر لی لیکن جب ان کے والد کو سٹاک ایکسچینج کے کاروبار میں بہت نقصان ہوا تو یہ خاندان نئی دہلی منتقل ہونے پر مجبور ہو گیا۔ یہاں مہرالنساء جو اس وقت کالج میں طالبہ تھی، اپنے والدین، دو بہنوں اور بڑی بہن کے تین بچوں کی واحد کفیل بن گئی۔

نئی دہلی کی خاتون ’باؤنسر‘ کا خواب

مہرالنساء کا کہنا ہے،’’ مجھے اپنے آپ پر فخر ہے، یہ کام آسان نہیں ہے، کلب میں خواتین کو تحفظ فراہم کرنا آسان کام نہیں ہے۔‘‘ کلب میں موجود نیکیتا لامبا نامی ایک خاتون کا کہنا ہے،’’ اگر میں یہاں آؤں اور ایک خاتون باؤنسر کو دیکھوں تو میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتی ہوں۔‘‘