1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی سفارت کار ’دہشت گردی‘ میں ملوث ہیں، پاکستان کا الزام

بینش جاوید
3 نومبر 2016

پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان میں تعینات بھارت کے متعدد سفارت کار مبینہ طور پر بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور بھارتی ’انٹیلجنس بیورو‘ کے رکن تھے اور یہ پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث تھے۔

https://p.dw.com/p/2S5bS
Indien Treffen des indischen und des pakistanischen Außenministers in Neu-Delhi
تصویر: Getty Images/AFP/P. Sing

اسلام آباد میں ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریہ نے پریس کانفرنس کے دوارن کہا،’’ کئی بھارتی سفارت کار جن کا تعلق ’را‘ اور ’آئی بی‘ سے ہے وہ سفارت کاروں کا روپ دھار کے پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔‘‘

پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں ان آٹھ افراد کے نام شائع کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک راجیش کمار اگنی ہوتری ہیں جو نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق  سفارت خانے کے کمرشل کونسلر ہیں اور پاکستان نے انہیں اسٹیشن چیف را قرار دیا ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ سے جاری بیان میں لکھا گیا ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں کو فروغ دے رہا ہے اور جیسا کہ کلبھوشن یادیو نے پاکستانی انتظامیہ کو آگاہ کیا تھا، بھارت دہشت گردانہ کارروائیوں میں مالی معاونت بھی فراہم کر رہا ہے۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق پاکستان نے ان سفارت کاروں پر سندھ اور بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کیا ہے ا ور کہا ہے کہ ان افراد نے 46 ارب ڈالر کے پاک چین اقتصادی راہ داری منصوبے کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔

نفیس ذکریہ نے میڈیا کو بتایا کہ بھارت نے سفارتی کوڈ آف کنڈکٹ اور سفارتی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ بھارت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اسٹاف ممبر محمود اختر کو ’پرسونا نان گرانٹا‘ قرار دے کر ویانا کنونشن کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔

گزشتہ روز بھارت نے پاکستانی نائب ہائی کمشنر کو طلب کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے بھارتی سفارت کاروں کے ناموں کو عوامی کرنے پر احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔ گزشتہ روز ہی پاکستان کی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ بھارت نے اس برس 2003 کے سیز فائر معاہدے کی 178 مرتبہ خلاف ورزی کی ہے جس کے باعث 19 شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔  

گزشتہ چند دنوں میں پاک بھارت سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ جولائی میں بھارتی افواج کی جانب سے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کو ہلاک کر دیا گیا تھا جس کے بعد  بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بہت بڑھ گیا تھا۔ بھارتی سکیورٹی افواج کی جانب سے مظاہرین پر کیے گئے کریک ڈاؤن میں کئی کشمیریوں کی ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔

ستمبر میں بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے سرحدی علاقے اُڑی میں مبینہ عسکریت پسندوں نے بھارتی فوج کے اڈے پر حملہ کر دیا تھا جس میں 19 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ بھارت نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ حملہ آور سرحد پار کرکے پاکستان سے بھارت میں داخل ہوئے تھے۔ اسی ماہ کے آخر میں بھارت نے مبینہ طور پر پاکستان میں ایک سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا تھا۔ پاکستان نے ایسے کسی حملے کی تردید کی تھی۔