بھارتی بلّوں پر بین الاقوامی اشتہارات: کام سے زیادہ نام اہم
7 فروری 2011بی ڈی مہاجن اینڈ سنز یا بی ڈی ایم کے ڈائریکٹر راکیش مہاجن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اشتہارات کے لیے کھلاڑیوں کو خریدنے کے مقابلے میں بلّوں کو خریدنا سستا بھی ہے اور آسان بھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم کرکٹ کے بلّے تیّار کرتے ہیں اور یہ کمپنیاں ان کے لیے اسٹکرز۔ مہاجن کی شکایت ہے کہ اس طرح ان کی کمپنی کا برانڈ پسِ پشت چلا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے اسپانسرز کے لیے ان کے پاس سرمایہ نہیں ہے۔
میرٹھ کے ہزاروں کاریگر ہر برس لاکھوں کی تعداد میں بین الاقوامی معیار کے مطابق کرکٹ کے بلّے اور گیندیں تیّار کرتے ہیں۔ یہ بلّے دنیا بھر کے بلّے باز استعمال کرتے ہیں جنہیں ان کاریگروں کے تجربے پر بھروسہ ہے۔ صرف بی ڈی ایم ہر برس ڈیڑھ لاکھ کے قریب بلّے اور سوا دو لاکھ کے قریب کرکٹ کی گیندیں تیّار کرتی ہے۔
مہاجن کا کہنا ہے کہ اسپانسرشپ کوئی بری بات نہیں ہے لیکن بلّا سازوں کے نام کو ہٹا دینا کوئی درست بات نہیں ہے۔ ’بلّے ہم تیّار کرتے ہیں لیکن لوگ ہمارے بجائے ان کمپنیوں کے نام سے واقف ہیں اور وہ ان کمپنیوں کو بلّا ساز بھی سمجھتے ہیں‘ مہاجن نے شکایتی لہجے میں کہا۔
تاہم کرکٹ کی کمرشلائزیشن سے مہاجن اور مہاجن جیسے دیگر بھارتی صنعت کاروں کو فائدہ تو پہنچ ہی رہا ہے۔ نہ صرف یہ کہ کرکٹ سے وابستہ سامان کی کھپت میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے بلکہ بین الاقوامی کمپنیاں اپنے اشتہارات بلّوں، گیندوں اور وکٹوں پر چسپاں کروانے کے لیے بھاری رقم بھی دیتی ہیں۔
مہاجن کا فخریہ انداز میں کہنا تھا کہ ’نائکی، ری بوک اور آڈیڈس بھارت میں موجود ہیں تاہم ہمارا کاروبار بھی پھل پھول رہا ہے۔ ایک اچھّا بلّا کیا ہوتا ہے اس کی پہچان رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ اصل بلّا ساز کون ہے‘
رپورٹ: شامل شمس⁄خبر رساں ادارے
ادارت: افسراعوان