1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی انتخابات: کم ووٹنگ باعث تشویش

افتخار گیلانی، نئی دہلی8 مئی 2009

بھارت میں حالیہ عام انتخابات کے دوران حالانکہ تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنی انتخابی مہم بڑی دھوم دھام سے چلائی لیکن ووٹروں کو پولنگ بوتھ تک لانا ان کے لئے سب سے بڑا چیلنج رہا۔

https://p.dw.com/p/HmO1
سیاسی جماعتوں کی تمام تر کوششیں بھی عوام کو پولنگ اسٹیشنوں تک لانے میں ناکام رہیںتصویر: picture-alliance / dpa

الیکشن کمیشن کی تمام کوششوں کی باوجود پچھلے چار مرحلوں میں پولنگ کا فیصد توقع سے کافی کم رہا۔

چوتھے مرحلے کی پولنگ میں 57 فیصد ووٹنگ سے گو کہ الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں نے قدرے راحت کی سانس لی ہے تاہم سیاسی لحاظ سے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل شمالی بھارت کی ریاستوں میں پولنگ کا اوسط چالیس فیصد سے بھی کم رہا جو یہاں پر سب کے لئے تشویش کا باعث ہے۔

Indiens Premierminister Manmohan Singh präsentiert Wahlprogramm
الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد کوئی لیڈر شائد ہی ووٹروں کے مسائل پر توجہ دینے کی زحمت کرتا ہے، مبصرین کی رائےتصویر: AP

تیسرے مرحلے میں 53 فیصد اور دوسرے مرحلے میں 55 فیصد ووٹ پڑے تھے۔ البتہ پہلے مرحلے کی پولنگ میں 60 فیصد ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔

2004 کے مقابلے اس الیکشن میں پولنگ کا فیصد گرا ہے ۔ماہرین کا خیال ہے کم پولنگ کی ایک بڑی وجہ کسی اہم سیاسی موضوع کا فقدان تھا۔ اس کے علاوہ گرم موسم اور سیاسی رہنماوں کے تئیں لوگوں کی عدم دلچسپی بھی کم پولنگ کی وجوہات رہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی سابق صدر وینکیا نائیڈو کا کہنا ہے کہ 46 ڈگری سینٹی گریڈ میں لوگ پولنگ بوتھوں تک جانے کے بجائے گھروں میں بیٹھ کر چھٹی گذارنا زیادہ پسند کرتے ہیں اس لئے الیکشن فروری یا زیادہ سے زیادہ مارچ تک مکمل کرالینے چاہئیں۔ وینکیا نائیڈو کا خیال ہے کہ ملک میں تقریباَ ہر چھ ماہ پر کوئی نہ کوئی الیکشن ہوتا رہتا ہے اور یہاں سیاسی پارٹیوں، سیاسی لیڈروں اور انتظامیہ کا بیشتر وقت انتخابات کی ہی نذر ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پے در پے انتخابات کی وجہ سے بھی لوگوں میں ووٹنگ کے تئیں عدم دلچسپی پیدا ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا تمام انتخابات کو ایک ساتھ ملا کر ایک ہی وقت میں کرنے پر تمام سیاسی پارٹیوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔

Wahlen in Indien
چھیالیس ڈگری سینٹی گریڈ میں لوگ پولنگ بوتھوں تک جانے کے بجائے گھروں میں بیٹھ کر چھٹی گذارنا زیادہ پسند کرتے ہیںتصویر: AP


کانگریس پارٹی کے ترجمان اور مرکزی وزیر اشونی کمار کا بھی کہنا ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو اس بات سے اختلاف نہیں ہو سکتا کہ زیادہ سے زیادہ ووٹروں کو پولنگ بوتھ تک لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے طریقہ کار پر تمام پارٹیوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ووٹ بہر حال جمہوریت کے استحکام کے لئے بنیادی جز کا درجہ رکھتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن یا متعلقہ اداروں نے ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کے لئے راغب کرنے کے خاطر کوشش نہیں کیں۔ کئی پرائیویٹ کمپنیوں نے اشتہاری مہم بھی چلائی۔ مختلف کمپنیوں اور دکانوں نے ووٹ ڈالنے والوں کو خریداری اور اپنی سروس پر رعائتیں دینے کا بھی اعلان کیا جب کہ فلم اداکار عامر خان نے تو اس کی لئے باضابطہ مہم ہی چلائی، لیکن ان کی کوششوں کا بھی کوئی خاص اثر دکھائی نہیں دیا۔

ممبئی میں جہاں گذشتہ نومبر میں دہشت گردانہ حملوں کی بعد پوری سول سوسائٹی اور عوام سڑکوں پر آگئے تھے، پولنگ کے دن کم ہی لوگوں نے اپنے گھروں سے نکل کر پولنگ بوتھ تک پہنچنے کی زحمت کی۔

لیکن یہ سوال لوگوں کی ذہنوں میں پیدا ہو رہا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کے سخت انتخابی ضابطہ اخلاق میں بندھے ہونے کی وجہ سے سیاسی پارٹیاں اور میڈیا اہم موضوعات اٹھا نہیں پائے یا انہوں نے جان بوجھ کر موضوعات نہیں اٹھائے یا سیاسی جماعتیں لوگوں میں مرکز میں نئی حکومت کے قیام کے سلسلے میں دلچسپی پیدا کرنے میں ناکام رہیں؟

ماہرین کا خیال ہے کہ ووٹنگ سے عدم دلچپسی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد کوئی لیڈر شائد ہی ووٹروں کے مسائل پر توجہ دینے کی زحمت کرتا ہے۔