1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بڑے ممالک کی يونيسکو کی فلسطينی رکنيت کی مخالفت غلط

1 نومبر 2011

يونيسکو ميں فلسطين کی رکنيت ايک درست قدم ہے، ليکن دنيا کے طاقتور ممالک اس کے مخالف ہيں۔ يہ مخالفت سياسی لحاظ سے کوتاہ انديشی اور اخلاقی اعتبار سے سراسر غلط ہے۔

https://p.dw.com/p/132xm
يونيسکو جنرل اسمبلی، پيرس۔ فلسطين کی رکنيت کی منظوری
يونيسکو جنرل اسمبلی، پيرس۔ فلسطين کی رکنيت کی منظوریتصویر: dapd

امريکہ کی شديد مخالفت کے باوجود کل پير 31 اکتوبر کو فلسطين کو اقوام متحدہ کی تعليمی ثقافتی اور سائنسی تنظيم يونيسکو کا مکمل رکن بنا ليا گيا۔ پيرس ميں ہونے والی يونيسکو کی اس جنرل اسمبلی ميں 107 رکن ممالک نے فلسطين کے حق ميں اور 14 نے مخالفت ميں ووٹ ديا۔ 52 ممالک نے ووٹ نہيں ديے۔

يونيسکو کی رکنيت کا حصول فلسطينيوں کے ليے ايک اہم کاميابی ہے، اقوام متحدہ کی مکمل رکنيت کی جانب ايک قدم۔ اقوام متحدہ کی تنظيم برائے تعليم سائنس اور ثقافت کا يہ فيصلہ اس بات کا اشارہ سمجھا جا سکتا ہے کہ عالمی برادری بالآخر اپنی ايک آزاد رياست کے حصول ميں فلسطينيوں کی مدد کرنا چاہتی ہے۔

اس فيصلے سے فلسطينيوں کو بہت عملی نوعيت کی مدد بھی مل سکتی ہے، کيونکہ خاص طور پر اسرائيل اور فلسطين کے تنازعے والے علاقے ميں، جسے مغربی دنيا ميں مقدس سرزمين کہا جاتا ہے، ايسے بہت سے اہم تاريخی اور ثقافتی مقامات ہيں جو دونوں فريقوں ميں متنازعہ ہيں۔ مثال کے طور پر مقدس مذہبی مقامات والا شہر يروشلم کا قديم حصہ، جو ناجائز طورپراسرائيل کے قبضے ميں ہے۔ يا مقبوضہ عرب علاقوں ميں وہ بہت سے آثار قديمہ اور وہاں ملنے والی قديم اشياء جو تقريباً سب کی سب ہی اسرائيلی عجائب گھروں کو منتقل کی جا چکی ہيں۔ اسی طرح بحيرہء مردار بھی ہے۔ فلسطينيوں کو ابھی تک اس سمندر اور اس کے نمکيات اور معدنيات تک رسائی حاصل نہيں ہے۔ يونيسکو کی رکنيت مل جانے سے انہيں اب کچھ حقوق حاصل ہو سکتے ہيں۔

دريائے اردن کے مغربی کنارے پر ايک يہودی بستی
دريائے اردن کے مغربی کنارے پر ايک يہودی بستیتصویر: AP

ليکن يونيسکو کی رکنيت فلسطينيوں کو ايک آزاد فلسطينی رياست کے حصول کی منزل سے اور دور بھی کر سکتی ہے۔ اس کی وجہ صرف يہ ہے کہ امريکہ سميت سارے ہی طاقتورممالک اس رکنيت کی مخالفت کر رہے تھے۔ جرمنی نے بھی يونيسکو ميں فلسطين کی شموليت کی مخالفت کی، اس دليل کے ساتھ کہ اس سے اسرائيل اور فلسطينيوں کے درميان دوبارہ شروع ہونے والے مذاکرات پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔

ليکن يہ دليل قابل يقين نہيں ہے۔ اسرائيل اور فلسطينيوں کے درميان براہ راست نہيں، بلکہ مشرق وسطٰی کے تنازعے ميں ثالثی کرانے والے ممالک کی وساطت سے جو مذاکرات پچھلے ہفتوں ميں شروع ہوئے ہيں، وہ صرف اس ليے ناکام ہورہے ہيں کہ اسرائيل فلسطينی علاقوں ميں يہودی بستياں تعمير کرنے کی پاليسی ختم کرنے اور مستقبل کی چھوٹی سی فلسطينی رياست کی سرحدی سالميت تسليم کرنے سے انکار کر رہا ہے۔

بحيرہء مردار کا ايک منظر
بحيرہء مردار کا ايک منظرتصویر: picture-alliance / Godong

جرمن حکومت اقوام متحدہ ميں فلسطينی رياست کی شموليت کی بھی مخالفت کر رہی ہے، حالانکہ جرمنی برسوں سے فلسطينی رياست کے قيام اور دو رياستی حل کی حمايت ميں زبانی جمع خرچ ميں مصروف ہے۔

يہ بات اہم اور بالکل درست ہے کہ يونيسکو نے فلسطين کو مکمل رکن کی حيثيت سے منظور کر ليا ہے۔ اس کی حمايت نہ کرنا سياسی لحاظ سے کوتاہ انديشی اور اخلاقی اعتبار سے تو بالکل ہی غلط ہے۔

تبصرہ: بٹينا مارکس، تل ابيب

ترجمہ: شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں