بڑی اصلاحات کے برطانوی مطالبے پر یورپی یونین کی پہلی سمٹ
17 دسمبر 2015آج سے برسلز میں شروع ہونے والا یہ اجلاس یورپی یونین کے اٹھائیس رکن ممالک کے سربراہان کو اصلاحات کی خاطر پیش کی جانے والی برطانوی تجاویز پر پہلی مرتبہ بحث کا موقع فراہم کرے گا۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر اصلاحات نہ لائی گئیں تو ان کا ملک یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ یورپی یونین کی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے اس سربراہی اجلاس کے دعوت نامے پر لکھا ہے، ’’بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے اور ہم ایک سنجیدہ بحث سے منہ نہیں موڑ سکتے۔‘‘ اسی سال یونان کے یورپی یونین سے ممکنہ اخراج کے لیے ’گریگزٹ‘ کی اصطلاح استعمال کی جا رہی تھی اور اب برطانیہ کے لیے ’بریگزٹ‘ کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے۔
برطانیہ گزشتہ چالیس برسوں سے یورپی اقتصادی اور سیاسی اتحاد کا رکن ہے اور ابتداء سے ہی وہ اس بارے میں تذبذب کا شکار رہا ہے۔ اس حوالے سے یہ خطرات بھی ہیں کہ برطانیہ کے یورپی یونین کو چھوڑ دینے کی صورت میں اس اتحاد کے غیر مستحکم ہونے کا امکان ہے۔ ڈیوڈ کیمرون کے مطابق صرف چار شعبوں میں اصلاحات کر دی جائیں تو وہ یورپی یونین کی رکنیت کے حوالے سے برطانیہ میں ایک عوامی ریفرنڈم کرانے کے اپنے اعلان پر نظر ثانی کریں گے۔ یہ شعبے اقتصادی مسابقت، قومی خود مختاری، معاشی نظم و ضبط اور برطانیہ میں یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک کے شہریوں کے لیے سماجی فوائد سے متعلق ہیں۔ کیمرون نے ماضی میں کہا تھا کہ اگر وہ ایک بار پھر وزارت عظمٰی کے لیے منتخب کر لیے گئے تو وہ 2017ء میں یورپی یونین میں رہنے یا اس سے نکل جانے کے موضوع پر ریفرنڈم کرائیں گے۔
اس سلسلے میں برطانوی وزیر خارجہ فلیپ ہیمنڈ کہہ چکے ہیں کہ برطانوی تجاویز اگر کسی رکن ملک کو پریشان کر رہی ہیں، تو اسے چاہیے کہ وہ برسلز کے اس اجلاس میں ان کا کوئی متبادل پیش کرے۔ لیکن دیگر رہنماؤں کا خیال ہے کہ لندن حکومت کو ہی اس بارے میں کوئی حل پیش کرنا چاہیے۔ ماہرین کے مطابق یہ واضح ہے کہ اس اجلاس میں یہ مسئلہ حل نہیں کیا جا سکے گا۔ اس تناظر میں ٹسک کہہ چکے ہیں، ’’ہم ابھی کئی موضوعات پر کسی بھی اتفاق رائے سے بہت دور ہیں۔‘‘
بیلجیم کے دارالحکومت میں ہونے والا یہ دو روزہ سربراہی اجلاس رواں برس یورپی یونین کی آخری سمٹ ہے۔ اس دوران مہاجرین کے بحران، انسداد دہشت گردی کے لیے کیے جانے والے اقدامات، توانائی اور اقتصادیات سے متعلق موضوعات پر بھی بات ہو گی۔ اس کے علاوہ روس پر عائد کی جانے والی پابندیوں کا موضوع بھی زیر بحث آ سکتا ہے۔