’بچے 100 ہی اچھے‘ باپ کی سینچری بنانے کی خواہش
3 جون 2016پاکستان جیسے قدامت پسند روایتی مسلم ملک میں کثرت ازدواج کے واقعات کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں، لیکن ایسا ہوتا ضرور ہے۔ تاہم یہاں سو بچوں کا باپ بننا ایک مشکل کوشش ضرور ہے۔
46 سالہ سردار جان محمد خلجی کا ماننا ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنا اس کا مذہبی فریضہ ہے۔ اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے خلجی، جو پیشے کے لحاظ سے طبی ٹیکنیشن ہیں، نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے تمام بچوں کے نام یاد رہتے ہیں اور ایسا شاذ ونادر ہی ہوتا ہے کہ وہ ان کے نام آپس میں ملا دیں۔ خلجی کے مطابق وہ اپنے بچوں اور ان کی ماؤں کے ساتھ خاندانی تقریبات جیسے شادیوں میں باری باری شرکت کرتے ہیں اور یوں ان سب کی محبت انہیں حاصل رہتی ہے۔
خلجی کا کہنا تھا کہ ان کی موجودہ تینوں بیویاں نسل بڑھانے کی ان کی خواہش کی حامی ہیں اور تینوں آپس میں ہم آہنگی سے رہتی ہیں۔ تاہم انہوں نے اے ایف پی کو اپنی بیویوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم عمل کارکن خبردار کرتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں سب سے زیادہ مسائل کا شکارخواتین اور بچے ہی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی طور پر مردوں کو چار بیویاں تک رکھنے کی اجازت ہے اگرچہ ایسا کرنے سے قبل پہلی بیوی اورایک ثالثی کونسل سے اجازت لینا ضروری ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی رافعہ زکریا نے اے ایف پی کو بتایا کہ ویسے تو پاکستان میں مرد کا ایک سے زائد بیویاں رکھنا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے لیکن اس ضمن میں کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں بھی ایسا ہوتا ہے وہاں بیویوں میں اداسی اور مایوسی جنم لیتی ہے جبکہ بچے اکثر اپنے والد کو جاننے کی کوشش میں ہی لگے رہتے ہیں۔
رافعہ نے کہا، ’’ قرآن ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی اجازت صرف اس صورت میں دیتا ہے، جب شوہر ان کے ساتھ ’کامل انصاف‘ کر سکے۔‘‘
تاہم تعداد ازدواج کے خلاف آواز اٹھانے والی رافعہ کا موقف تھا کہ سب کے ساتھ مکمل انصاف ممکن نہیں ہے اور اس لیے دوسری شادی لازمی طور پر ایک اچھا اقدام ثابت نہیں ہو سکتی۔ رافعہ نے مزید کہا، ’’ کسی نہ کسی کو اس کے غلط نتائج بھگتنے پڑتے ہیں اور تقریباً ہمیشہ اس سے خواتین اور بچے ہی متاثر ہوتے ہیں۔‘‘
کوئٹہ میں عائلی مقدمات کے وکیل محمد بلال کاسی نے رافعہ زکریا کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا، ’’ہم وکلاء ایک سے زائد شادیوں سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل سے بخوبی واقف ہیں۔ خواتین اور بچوں کو ان مسائل کی وجہ سے ذہنی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے اور باپ کے انتقال کے بعد حقوق اور جائیداد کے سنگین قانونی تنازعات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘
جان محمد خلجی کی بیگمات کو بات کرنے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ شورش زدہ صوبہ بلوچستان کے مضافات میں مٹی سے بنے ایک گھر کے پانچ کمروں میں رہنے والے ان کے بہت سے بچوں کی زندگی کیسی گزر رہی ہے۔ محمد خلجی، جو ایک بے ضابطہ کلینک چلاتے ہیں،کا دعوٰی ہے کہ وہ انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ کلینک میں وہ معمولی بیماریوں جیسے سر درد وغیرہ کا علاج کرتے ہیں اور اپنی خدمات کے عوض 250 روپے معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ جبکہ غریبوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ محمد خلجی عطیات کے ذریعے 400 طالب علموں پر مشتمل ایک مدرسہ بھی چلاتے ہیں، جہاں ان کے چار بیٹے بھی قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ خلجی کا کہنا ہے کہ ان کے 35 میں سے بیس بچے نجی سکول میں زیر تعلیم ہیں، جن کی وہ فیس ادا کرتے ہیں۔
ان کا ارادہ ہے کہ جب بچوں کی ضروریات بڑھ جائیں گی تو وہ حکومت سے امداد کی درخواست کریں گے۔ تاہم ایسی درخواست کا قبول کیا جانا ناممکن ہی نظر آتا ہے۔ عالمی بینک اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ شرح پیدائش پاکستان میں ہے، جہاں اوسطاً ہر عورت کے تین بچے ہیں۔ جبکہ گزشتہ تین سالوں میں ملک میں باقاعدہ مردم شماری بھی نہیں کرائی جا سکی ہے۔