بچے کی اصل ولدیت جاننے کا جرمن منصوبہ
30 اگست 2016مختلف سماجی اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں چار سے دس فیصد بچے ایسے ہیں جن کا حقیقی والد کوئی اور ہوتا ہے اور انہیں پالتا کوئی اور ہے۔ ماہرینِ سماجیات کا خیال ہے کہ ایسے بچوں کی مائیں ہی اُن کے اصل والد کے بارے میں یقینی طور پر آگہی رکھتی ہیں۔ ایسے بچے جو دوسرے والد کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں، انہیں انگریزی میں ’مِلک مینز کِڈز‘ کہا جاتا ہے۔ جرمن معاشرے میں ان بچوں کو ’ککو یا کوئل کے بچے‘ قرار دیا جاتا ہے۔ کوئل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چڑیا کے گھونسلے میں انڈے دیتی ہے۔ اگر جرمن حکومت اِس نئے قانون کے نفاذ میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر ایسے بچوں کی ماؤں کو قانون کی ضرورت کے تحت ظاہر کرنا ہو گا کہ جب حمل ٹھہرا تھا تو وہ کس مرد کے ساتھ رہ رہی تھیں۔
اس قانون کے حوالے سے جرمن وزیر انصاف ہائیکو ماس نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ اِس قانون کی ضرورت اِس لیے محسوس کی جا رہی ہے تا کہ بچے کی ولدیت کے بعد اصل والد پر مالی ذمہ داری کا تعین کیا جا سکے۔ ماس کے مطابق بچے کے بائیولوجیکل باپ کی شناخت سے درست ولدیت سامنے آ سکے گی۔ وزیر انصاف نے مزید کہا کہ باپ کے حتمی تعین کے بعد اصل والد بچے کی کم از کم دو برس تک کفالت کا ذمہ دار ہو گا۔
اس قانون کے حوالے سے یہ پہلو بھی زیر غور ہے کہ کسی بھی ماں کو مجبور نہیں کیا جائے گا کہ وہ بچے کی ولدیت کا انکشاف کھلے عام کرے تاہم اِس کا تعین عدالت کرے گی کہ کوئی ماں اپنے بچے کے مستقبل کے لیے اصل والد کا نام مخفی رکھ سکتی ہے۔ کئی ماہرینِ قانون کا خیال ہے کہ عدالت بھی حقیقی ولدیت کی شناخت کے تناظر میں حکومتی قانون سازی کو غیر ضروری قرار دے سکتی ہے۔
جرمن وزیرانصاف ہائیکو ماس نے یہ بھی وضاحت دی ہے کہ اِس قانون سے اصل والد کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیا جائے گا۔ کئی ماہرین سماجیات نے اِس تجویز کو معاشرتی توڑ پھوڑ کی جانب ایک اور قدم قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اس عمل سے کئی بچوں میں نفسیاتی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ عدم تحفظ پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی خیال کیا گیا ہے کہ اصل والد کی شناخت سے کئی ازدواجی تعلقات ٹوٹنے کے علاوہ ایک ساتھ رہنے والے مرد اور عورت میں بے چینی اور عدم اعتماد بھی بڑھے گا۔ اِس عدم اعتماد کا نتیجہ طلاق کی شرح میں اضافے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
جرمن پارلیمنٹ میں یہ منصوبہ بدھ 31 اگست کو باقاعدہ قانون سازی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ چانسلر میرکل کی خاندانی منصوبہ بندی کی وزیر مانویلا شوائسگ بھی اِس بل کے پیش کرنے میں شریک رہی ہیں۔ اراکین پارلیمنٹ نے اِس مشکل معاملے پر اُن کی کاوشوں کو سراہا ہے۔ شوائسگ کا کہنا ہے کہ اِس قانون کی پیچیدگیوں اور کمزوریوں کو کم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔