1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بوسنیائی راہنماوں کی باہمی بدگمانیاں

22 اکتوبر 2009

بوسنیا ہیرسے گووینا کے مختلف قومی گروپوں کے رہنما دستور سازی اور اصلاحات سے متعلق اہم عالمی مذاکرات میں اتفاق رائے پر پہنچنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/KCwQ
تصویر: AP

خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس ناکامی کے بعد یورپی یونین اور نیٹو میں بوسنیا کی شمولیت کے امکانات مزید کم ہوگئے ہیں۔ لمبے عرصے کی خانہ جنگی کا شکار رہنے کے بعد یہ جنوب مشرقی یورپی ملک، انتظامی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم ہے،جہاں مسلمان، کروآٹ اور سیرب آبادیوں کی نمائندگی کرنے والے رہنما، اپنے اپنے تحفظات کے باعث اصلاحات سے متعلق کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہوسکے ہیں۔

امریکہ اور یورپ کی جانب سے بوسنیا کو نیٹو اور یورپی یونین میں شمولیت جیسی مراعات کی بلاواسطہ پیش کشیں بھی کی گئیں تاہم انیس سو بانوے تا پچانوے کی بوسنیا جنگ میں ہونے والی ایک لاکھ ہلاکتوں کے بعد سے پیدا ہونے والی دوریوں کو قربتوں میں بدلنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

بوسنیا کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی اہم نوعیت کے مذاکرات سرائیوو میں اقوام متحدہ کے امن مشن کے اڈے بٹمیر؟ میں منعقد ہوئے۔ اِس بات چیت میں سویڈن کے وزیرخارجہ کارل بِلٹ، امریکی ڈپٹی سیکریٹری آف اسٹیٹ جیمز سٹائن برگ اور یورپی یونین میں توسیع کے کمشنر اولی ریہن بھی شریک ہوئے۔

مذاکرات کی ناکامی کے بعد جاری کردہ مشترکہ بیان میں، ثالثی کرنے والے یورپی اور امریکی حکام نے کہا کہ تجاویز پر مشتمل ایک مسودہ ان تمام رہنماؤں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، جس سے ممکنہ طور پر آگے چل کر اتفاق رائے پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اگلے مہینے دوبارہ مذاکرات طے ہیں۔

Bosnien und Herzegowina Beerdigung Flash Format
بوسنیا جنگ میں قتل کئے گئے پانچ سو سے زائد مسلمانوں کی بقاییا جات کوجولائی میں ایک یادگاری تقریب کےبعد دفن کیا گیاتصویر: picture-alliance/ dpa

بوسنیا کی جنگ کے بعد سے یہ ملک بنیادی طورپر دو نیم خودمختار ریاستوں میں تقسیم ہے یعنی سیرب جمہوریہ سیربسکا اور مسلم کروآٹ فیڈریشن جبکہ ایک کمزور مرکزی ادارہ انہیں آپس میں جوڑے ہوئے ہے۔ اس ادارےکے فیصلوں کی توثیق ملک کے تینوں لسانی گروہوں کی جانب سے ہونا ضروری ہوتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بداعتمادی کے ہوتے ہوئے، یہ نظام حکومت، انتہائی ناکارہ اور پیچیدہ ہوکر رہ گیا ہے، جو بوسنیا کی یورپی یونین اور نیٹو میں شمولیت جیسے مواقع کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

بوسنیا کے سیرب علاقائی خودمختاری چاہتے ہیں جبکہ مسلمان اور کروآٹس ایک ایسے مضبوط مرکزی نظام کے حق میں ہیں، جس کا دارلخلافہ سرائیوو میں ہو۔

اس پیچیدہ حکومتی نظام میں عالمی برادری کی جانب سے متعدد بار اصلاحات کا مطالبہ سامنے آیا ہے تاہم بوسنیا کی سیرب آبادی ہمیشہ اس کی مخالف رہی۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بوسنیائی سیرب کو اپنے اختیارات کم ہوجانے یا چھن جانے کا اندیشہ ہے۔

بوسنیا کی اکثریتی مسلم جماعت، SDA سے تعلق رکھنے والے سلیمان تیہک نے صحافیوں کو بتایا کہ مذاکرات ناکام ہو چکےہیں۔ واضح رہے کہ سلیمان واحد رہنما تھے، جو اصلاحات کے لئے مشروط طور پر رضا مند ہوگئے تھے۔

بوسنیائی سیرب راہنما ملوراد دودک کا کہنا تھا کہ کسی بھی بات پر اتفاق نہیں ہوا ہے۔ دودک کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا ہے، جنہوں نے بوسنیا کے حکومتی نظام میں مجوزہ اصلاحات کی کھلم کھلا مخالفت کرتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دیا تھا۔

رپورٹ : شادی خان سیف

ادارت : امجد علی